Maktaba Wahhabi

59 - 406
یہ اہل علم کے ہاں عدل کا شرعی معنی تھا۔ اس میں اگرچہ ان کی عبارتیں مختلف ہیں لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ ان سب کا خلاصہ اور نچوڑ یہ ہے کہ:’’عدل نفس کے اندر موجود وہ ملکہ [وصف] ہے جو انسان کو دائمی تقوی اور مروت کا متحمل بناتا ہے اور ایسا ہونا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسان اوامر کو بجا نہ لائے اور نواہی سے اجتناب نہ کرے اور ہر اس چیز سے دور رہے جو کہ مروت کے خلاف ہو اور ایسا ہونا اسلام اور بلوغ اورعقل اور فسق و فجور سے سلامتی کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اس لحاظ سے کسی ایک میں ایسی عدالت ثابت نہیں ہوسکی جیسی عدالت اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ثابت ہوئی ہے۔ تمام صحابہ عادل تھے، اور ان میں صفت عدالت[ اپنے پورے لوازمات اور حسن و جمال کیساتھ] موجود تھی اور ان میں سے بعض سے اگرچہ اس کے خلاف واقعات صادر ہوئے ہیں ، جیسا کہ کسی سے گناہ کا صادر ہوجانا تو آپ ان میں سے کسی ایک کو بھی اس گناہ پر مصر نہ پاس گے۔ بلکہ آپ دیکھیں گے کہ وہ فوراً توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے ہیں ۔ پس اس صورت میں ان کی عدالت میں قدح واقع نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ ہمارا یہ دعوی کبھی نہیں رہا کہ ان سے کوئی لغزش یا گناہ ہو ہی نہیں سکتا۔ [بلکہ ہم کہتے ہیں کہ وہ گناہ پر اصرار نہیں کرتے ]۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلامی عقیدہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عادل قرار دیا ہے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تعدیل[عدالت ِ] صحابہ کے اتنے دلائل ہیں جن کی موجودگی میں کسی بیمار ذہن کے لیے ان کی عدالت میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ ہر وہ حدیث جس کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہو، وہ اس وقت تک حجت نہیں ہوسکتی جب تک اس کے راویوں کی عدالت ثابت نہ ہوجائے۔ اس کے لیے ان راویوں کے حالات زندگی دیکھے جائیں گے، سوائے صحابی کے۔ کیونکہ صحابہ کرام کی عدالت اورثقاہت اللہ تعالیٰ نے ثابت کی ہے اور ان کی طہارت و پاکیزگی اورانتخاب ہونے کی خبر دی ہے اوراس پر قرآنی نصوص موجود ہیں جن میں کہیں سے بھی اور کسی بھی طرح باطل کی دخل انداز نہیں ہوسکتی ۔ اس مسئلہ کی مزید تفصیل بیان کرنے سے پہلے یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس مسئلہ میں ہمارے پاس اصل اور بنیاد اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ کرام کی تعریف و ثناء اور مدح سرائی ہے۔ قرآن مجید دسویوں نصوص سے بھرپور ہے جن میں ان صحابہ کرام کے ایمان کا بیان اور ان کی تعریف و ثناء اور ان سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا اظہار ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
Flag Counter