Maktaba Wahhabi

101 - 503
بادیہ نشینوں کو بڑا متاثر کیا اور خصوصاً ایسے حالات میں کہ ان میں سے زیادہ تر لوگ بے کار بیٹھے اپنے وقت کا آدھا حصہ کھانے پینے اور سونے میں گزارتے اور آدھا حکومتی اور ریاستی سیاست میں بحث مباحثہ کرنے اور عثمان رضی اللہ عنہ کے تصرفات کے بارے میں گفتگو کرنے میں جنہیں سبائی بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ایک عامل عبداللہ بن عامر کو اس صورت حال کا ادراک ہوا تو انہوں نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ وہ لوگوں کو جہاد کرنے کا حکم دیں اور انہیں جنگوں کا ایندھن بنا دیں تاکہ ان کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا جائے۔[1] ایسے افراد کی اس قسم کی گفتگو اور غور و فکر کے ماحول میں جو کہ دین کی زیادہ سوجھ بوجھ کے بغیر جنگ کے عادی تھے ان سے کسی بھی برائی کی توقع کی جا سکتی ہے، اور اس کے لیے یہی کافی تھا کہ اعراب کو تحریک دے کر انہیں کسی راستے پر لگا دیا جائے۔ پھر یہ ہوا کہ یہ لوگ بغاوت پر اتر آئے، ہیجان پیدا کرنے لگے، فتنے کھڑے کرنے لگے۔ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے فتنہ میں اور اس کی آگ بھڑکانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔[2] ط:…حلال کو حرام قرار دینے کا غلط مفہوم: شریعت میں ورع و پرہیز گاری بڑا عمدہ وصف ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کو ترک کر دیا جائے جن کے اپنانے میں کوئی حرج نہیں اور جن میں کوئی حرج ہے ان سے ڈرا جائے اور یہ اصل میں ’’اللہ کے لیے مباحات سے ہاتھ کھینچ لینا‘‘ سے عبارت ہے۔ ورع و پرہیز گاری ایک شخصی وصف ہے جس کا انسان اپنے آپ سے تو مطالبہ کر سکتا ہے مگر دوسروں سے نہیں۔ اس کی سب سے خطرناک قسم کی پرہیز گاری یہ ہے جو یہ اپنی جہالت کی وجہ سے مباح کو حرام یا فرض قرار دے دیتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس میں فتنہ پرداز لوگ مبتلا ہو گئے تھے۔[3] باغی عناصر نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے مباح امور کے اپنانے کو اسلام سے خروج اور ان سے پہلے لوگوں کی سنت کو تبدیل کرنے پر محمول کیا، لہٰذا جہلاء کے نزدیک یہ امور بڑے سنگین قرار پائے اور اس بنا پر انہوں نے خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خون کو مباح قرار دے دیا اور یوں ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے لیے فتنہ کا دروازہ کھول دیا۔[4] ی:…خود غرض لوگوں پر مشتمل نئی نسل کا ظہور: دوسری نسل (اولاد صحابہ رضی اللہ عنہم ) کے لوگوں میں سے کچھ ایسے افراد بھی سامنے آئے جو اپنے آپ کو حکومتی باگ ڈور سنبھالنے کا اہل تصور کرتے تھے۔ اس قسم کے لوگوں نے یہ سمجھا کہ حکومت تک رسائی کا راستہ ان کے سامنے بند ہے۔ عام طور سے ایسا ہوتا ہے کہ جب جاہ پسند اور خود غرض لوگ اپنے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے کوئی راہ نہیں پاتے تو وہ تبدیلی کی جائز و ناجائز ہر کارروائی میں حصہ لیا کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے معاملات کو نمٹانا بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔[5]
Flag Counter