Maktaba Wahhabi

102 - 503
ک:…کینہ پرور گروہ کا وجود: اس دوران دائرہ اسلام میں کچھ ایسے منافق بھی داخل ہو گئے جو اسلام اور مسلمانوں سے بدلہ لینے سے قاصر تھے چونکہ یہ لوگ کینہ پرور بھی تھے اور بڑے ذہین اور عیار و چالاک بھی، لہٰذا انہوں نے مسلمانوں کے ان کمزور پہلوؤں کا ادراک کر لیا جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ فتنہ کھڑا کرنے کی پوزیشن میں آ گئے اور پھر کچھ ایسے لوگ بھی ان کے ہتھے چڑھ گئے جو ان کی چکنی چپڑی باتوں کو پورے انہماک سے سنا کرتے تھے اور جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔[1] ہم قبل ازیں مملکت اسلامیہ میں یہود و نصاریٰ اور فارسیوں کے وجود نا مسعود سے آگاہ ہو چکے ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ سب لوگ اسلام اور دولت اسلامیہ کے خلاف اپنے دلوں میں بغض اور کینہ رکھتے تھے، مگر ہم اس جگہ اس امر کا اضافہ کرنا چاہیں گے کہ اگر اس قسم کے لوگوں میں سے کسی پر اس کے کسی جرم کی پاداش میں حد یا تعزیر نافذ کی گئی اور اس کو یہ سزا خلیفہ نے یا اس کے نامزد کسی والی نے کسی شہر میں دی خصوصاً بصرہ، کوفہ، مصر اور مدینہ میں تو یہود و نصاری اور جرائم پیشہ لوگوں نے بعض ایسے لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکایا جن میں سے زیادہ تر بادیہ نشین تھے اور وہ دین کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتے تھے جس کے نتیجہ میں ان لوگوں کے حمایت کنندگان کی ایک ایسی جماعت معرض وجود میں آئی جن کے بارے سب کا کہنا یہی تھا کہ یہ شرپسند لوگ ہیں، اخلاق باختہ، بدکردار، پست ذہن اور پرلے درجے کے احمق، گھٹیا اور ذلیل اور شیطان کے آلہ کار ہیں۔[2] ان گھٹیا ترین ناقدین اسلام کے ضمن میں متعدد مآخذ و مصادر میں عبداللہ بن سبا صنعانی یہودی کا نام بار بار آتا ہے۔ یہ بدنام زمانہ شخص یہودی تھا پھر اس نے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا مگر اس کے خفیہ اور مذموم مقاصد سے کوئی بھی آگاہ نہ ہو سکا، وہ ایک مسلمان فرد کی حیثیت سے مختلف اسلامی شہروں میں گھومتا پھرتا رہا اور پس پردہ فتنہ کی آگ بھڑکاتا رہا، اس کے بارے میں تفصیلی گفتگو آگے چل کر کی جائے گی۔ ل:…عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر اعتراضات کی بوچھاڑ کرنے کا ٹھوس منصوبہ: خلافت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں معاشرہ مختلف عوامل و اسباب کی وجہ سے جھوٹی افواہوں پر کان دھرنے کے لیے آمادہ اور اپنے اندر پیدا کردہ دراڑوں کو برداشت کرنے کے قابل ہو چکا تھا۔ اصحاب فتنہ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام پر خلیفۃ المسلمین کے امراء میں کیڑے نکالنے پر اتفاق کر لیا تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے لوگوں کو اپنی طرف مائل کیا اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی۔ خلیفۃ المسلمین پر جو اعتراضات کیے گئے اور جن کی وجہ سے انہیں ہدف تنقید بنایا گیا، وہ درج ذیل ہیں: ۱۔ منصب خلافت سنبھالنے سے قبل ان کا ذاتی کردار، یعنی بعض غزوات اور مواقع سے ان کا غائب رہنا۔ ۲۔ ان کا طرز حکمرانی: اپنے قرابت داروں کو والی مقرر کرنا اور منصب ولایت کی تفویض کا طریقہ کار۔
Flag Counter