Maktaba Wahhabi

104 - 503
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دعوت پر آئے ہیں، پھر انہوں نے معاملات کو یہاں تک بھڑکایا کہ بات خلیفۃ المسلمین کی شہادت تک جا پہنچی۔[1] جھوٹے پروپیگنڈہ کے ان وسائل کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے لوگوں سے یہ کہنا بھی شروع کر دیا کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے روا رکھے گئے مظالم کے خلاف جہاد کر رہے ہیں اور ہم صرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ ولاۃ الامر کو معزول کر کے ان کی جگہ نئے لوگوں کا تقرر کیا جائے، پھر اس سے آگے بڑھ کر وہ عثمان رضی اللہ عنہ کی دست برداری کا مطالبہ کرنے لگے، پھر سرکشی پر مبنی ان کی جرأت اس حد تک بڑھ گئی کہ انہوں نے خلیفۃ المسلمین کو شہید کر ڈالا۔ انہوں نے یہ قدم اس وقت اٹھایا جب انہیں یہ خبر ملی کہ مختلف شہروں سے لوگ ان کی نصرت و معاونت کے لیے مدینہ منورہ کی طرف بڑھ رہے ہیں جس سے ان کے خلیفہ رضی اللہ عنہ کا گھلا گھونٹ دینے کے جذبات مزید بھڑکے اور انہیں یہ شوق چرایا کہ جس طرح بھی بن پائے انہیں فوراً قتل کر دیا جائے۔[2] ن:…فتنہ کی آگ بھڑکانے میں ابن سبا کا کردار: عثمانی خلافت کے آخری سالوں میں اسلامی معاشرہ میں اضطراب کی علامتیں ظاہر ہونا شروع ہو گئیں، بعض یہودی فتنہ کے عوامل سے فائدہ اٹھانے کی غرص سے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مناسب وقت پر نمودار ہونے کی تیاریاں کرنے لگے۔ ان میں سے عبداللہ بن سبا سرفہرست ہے۔ جسے ابن السوداء کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ یہودی الاصل اس شخص نے شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کا فتنہ کھڑا کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ بڑا واضح اور انتہائی خطرناک تھا۔ فتنہ کے بعض عوامل نے اس کے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور انہیں مزید ہوا دینے کے لیے اس نے ایسی آراء اور معتقدات کا دعویٰ پیش کیا جنہیں اس نے اپنی کینہ پرور یہودیت سے جعل سازی کرتے ہوئے اخذ کیا اور پھر اپنی طرف سے ان کا اختراع کر کے انہیں اپنے طے شدہ اہداف تک پہنچنے کے لیے لوگوں میں عام کرنا شروع کر دیا۔ اس کی اس سازش کے پس پردہ اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنا۔ فتنہ کی آگ کو بھڑکانا اور امت اسلامیہ کے افراد میں دشمنی کے بیج بونا جیسے مذموم مقاصد کار فرما تھے۔ وہ اپنے ان مقاصد میں کامیاب رہا۔ امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کو ظلماً شہید کر دیا گیا اور امت مختلف گروہوں میں ہمیشہ کے لیے تقسیم ہو گئی۔[3] ابن سبا کے کردار کا خلاصہ یہ ہے کہ اس نے صحیح بنیادوں پر غلط عمارت کھڑی کی اور اس کی چکنی چپڑی باتیں سادہ لوح، انتہا پسند اور نفسانی خواہشات کے پجاری لوگوں میں رواج پکڑ گئیں اور وہ اس کے آس پاس اکٹھے ہو گئے۔ اس سے اس کی ہمت بڑھی تو اس نے قرآن کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس کی اپنے فاسد خیال کے مطابق تاویل کرنے لگا۔ اس نے کہا: مجھے تو اس آدمی کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے جو عیسیٰ بن مریم کے واپس آنے کی تو تصدیق کرتا ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واپس آنے کی تکذیب کرتا ہے۔ حالانکہ اللہ فرماتا ہے:
Flag Counter