Maktaba Wahhabi

117 - 503
کے احکامات کی تعمیل کرنے کا اقرار کیا۔[1] مگر وہ اس بارے میں سچ نہیں بول رہے تھے۔ انہوں نے دوسرے لوگوں سے اپنے اہداف کو چھپا رکھا تھا۔ ابوموسیٰ لوگوں کو نمازیں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ ان کے پاس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے انہیں کوفہ کا امیر مقرر کرنے کا حکم نامہ موصول ہو گیا، اس خط میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ سے خروج کرنے والوں کو لکھا کہ میں نے تم پر اس شخص کو امیر بنایا ہے جسے تم نے پسند کیا جبکہ میں نے سعید کو واپس بلا لیا ہے۔ اللہ کی قسم! میں اپنی عزت کو تمہارے لیے فرش راہ کر دوں گا۔ تمہاری زیادتیوں پر صبر کروں گا اور تمہیں صحیح کرنے کے لیے مقدور بھر کوشش کروں گا۔ مجھ سے ہر اس چیز کا سوال کر لو جسے تم پسند کرتے ہو بشرطیکہ اس میں اللہ کی معصیت نہ ہو۔ میں تمہیں وہ ضرور دوں گا اور تم جس چیز کو ناپسند کرو گے میں اسے تم سے واپس لے لوں گا بشرطیکہ اس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہوتی ہو۔ تاکہ تمہارے پاس میرے خلاف کوئی حجت باقی نہ رہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس قسم کے خطوط مختلف شہروں کو بھی ارسال کیے۔[2] اللہ تعالیٰ امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے راضی ہو وہ کس قدر صلح جو اور وسیع ظرف تھے اور کس قدر کینہ پرور سبائی باغیوں نے ان پر مظالم ڈھائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حکام سے مشورہ اور اس بارے معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے: حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے باغی عناصر کی طرف سے کھڑے کیے گئے فتنہ کا مختلف وسائل و اسالیب کے ساتھ مقابلہ کیا، اس دوران آپ نے پوری کوشش کی کہ اہل فتنہ کے اصل اغراض و مقاصد سے آگاہی حاصل کی جائے۔ مذاکرات کے ذریعے شورش پسندوں اور سرکشی اختیار کرنے والوں کے خلاف اتمام حجت کیا جائے اور ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کر لیا جائے۔ اس کا ایک طریقہ یہ تھا کہ آپ نے مشورہ کے لیے مندرجہ ذیل حکام کو اپنے پاس بلایا: عبداللہ بن عامر، معاویہ بن ابو سفیان، عمرو بن العاص، عبداللہ بن سعد اور سعید بن العاص رضی اللہ عنہم ، یہ سب لوگ مشورہ کرنے کے لیے ایک جگہ جمع ہوئے۔ سب حضرات نے اپنی اپنی آراء کا اظہار کیا اور اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ اپنے سپہ سالاروں کو حکم دیں کہ وہ اپنے اپنے علاقہ کا انتظام کریں۔ میں اہل شام کو قابو میں رکھنے کا ذمہ لیتا ہوں۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اجلاس میں شریک تمام لوگوں کی آراء و تجاویز سن لیں تو آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا: میں نے تمہاری آراء سن لیں، ہر آنے والے واقعہ کا ایک دروازہ ہوتا ہے جس سے وہ آتا ہے۔ اس امت کے لیے جس حادثہ کا خوف ہے وہ آ کر رہے گا۔ اگر اس کا دروازہ بند بھی کر دیا جائے تو اسے بزور کھول دیا جائے گا مگر میں اسے نرمی سے بند کروں گا۔ البتہ حدود اللہ میں کسی سے کوئی نرمی نہ ہو گی۔ اگر یہ دروازہ بزور بازو کھولا گیا تو پھر مجھ پر کسی کی حجت باقی نہ رہے گی۔ اللہ جانتا ہے کہ میں نے لوگوں کی بھلائی میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ فتنہ کی چکی چلنے والی ہے اگر عثمان رضی اللہ عنہ اس حالت میں فوت ہو گیا کہ اس نے چکی کو حرکت نہ دی تو اس کے لیے بشارت ہے۔ تم لوگ واپس جا کر لوگوں میں سکون پیدا
Flag Counter