Maktaba Wahhabi

118 - 503
کرو، ان کے حقوق ادا کرو، ان کی کوتاہیوں سے درگزر کرو اور اللہ تعالیٰ کے حقوق میں کوئی مداہنت نہ کرو۔[1] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حکام کو یہ بھی ہدایت کی کہ ہنگامہ آرائی کرنے والوں پر سختی نہ کی جائے۔ نہ انہیں قید کیا جائے اور نہ کسی کو قتل کیا جائے اور یہ کہ ان کے ساتھ اچھائی اور نرمی والا معاملہ کیا جائے۔[2] آپ نے اپنے عمال سے کہا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں لوٹ جائیں اور اس فتنہ کا اسی انداز سے مقابلہ کریں جس کا ان کے سامنے اعلان کیا گیا ہے۔ ایسا فتنہ جسے صاحب بصیرت آتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔[3] معاویہ رضی اللہ عنہ شام روانگی سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: امیر المومنین! آپ میرے ساتھ شام تشریف لے چلیں قبل اس کے کہ ایسے امور و واقعات آپ پر ہجوم کر آئیں جن کا آپ سامنا نہ کر سکیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی کو کسی بھی چیز کے بدلے میں نہیں بیچ سکتا۔ چاہے اس کے بدلے میری شاہ رگ ہی کیوں نہ کاٹ دی جائے۔ یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: پھر میں آپ کے لیے شام سے لشکر بھیج دیتا ہوں۔ وہ متوقع خطرات کا مقابلہ کرنے، آپ اور اہل مدینہ کا دفاع کرنے کے لیے مدینہ میں قیام کرے گا۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اس لشکر کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسائیوں کا رزق کم نہیں کر سکتا اور نہ میں اہل ہجرت اور اہل نصرت کو مشکلات میں ہی ڈال سکتا ہوں۔ معاویہ رضی اللہ عنہ گویا ہوئے: امیر المومنین! یا تو آپ کو اچانک قتل کر دیا جائے گا یا آپ سے جنگ کی جائے گی۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’حسبی اللّٰه و نعم الوکیل‘‘ ’’میرے لیے اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے۔‘‘[4] پھر وہی ہوا جس کی معاویہ رضی اللہ عنہ توقع کر رہے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کرنے اور آخر کار انہیں قتل کر دینے کے ارادہ سے اہل فتنہ کے جتھے آنا شروع ہو گئے مگر مختلف صوبوں سے آنے والے ان باغیوں میں شام کی کوئی جماعت شامل نہیں تھی۔[5] شہادت عثمان رضی اللہ عنہ اور اس بارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا موقف: باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ بڑا سخت کر دیا یہاں تک کہ انہیں مسجد نبوی میں نماز پڑھنے سے بھی روک دیا گیا مگر اس دوران جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا انہوں نے بڑے صبر اور حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیا۔ آپ قضاء و قدر پر بڑا پختہ ایمان رکھنے کے ساتھ اس امر کے لیے کوشش کرتے رہے کہ اس مصیبت کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے۔ اس کے لیے آپ کبھی تو مسلمان کے خون کی حرمت کے بارے لوگوں کو خطبہ دیتے نظر آتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے ہیں کہ کسی بھی مسلمان کا ناحق خون کرنا جائز نہیں ہے۔ کبھی لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے انہیں اپنے فضائل و مناقب سے آگاہ کرتے اور اسلام میں اپنی خدمات جلیلہ سے آشنا کراتے ہیں
Flag Counter