Maktaba Wahhabi

132 - 503
صحت کا یقین تھا اور اسی لیے انہوں نے ان کی اطاعت بھی قبول کر لی۔ جنگ کے شعلے بھڑکانے والے شورش پسند اور سبائی گروہ کے لوگ تھے۔ ۳۔ معاویہ رضی اللہ عنہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے خط کا جواب دیتے ہیں: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو بہت سے خطوط لکھے مگر انہوں نے کسی بھی خط کا جواب نہ دیا، آخرکار انہوں نے ایک آدمی کے ہاتھ ایک مکتوب بھیجا، جب وہ آدمی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ نے اس سے دریافت کیا: تیرے پیچھے کیا کچھ ہے؟ اس نے جواب دیا: میں تمہارے پاس ان لوگوں کے پاس سے آیا ہوں جو صرف قصاص چاہتے ہیں اور وہ سب کے سب بدلہ لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ میں نے وہاں ستر ہزار ایسے شیوخ کو چھوڑا ہے جو عثمان رضی اللہ عنہ کی قمیص پر رو رہے ہیں اور قمیص دمشق کے منبر پر رکھی ہے۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میرے اللہ! میں تیرے حضور عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے براء ت کا اظہار کرتا ہوں۔‘‘ اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ کا قاصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس سے اٹھ کر چلا گیا، اسے عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کرنے والوں نے قتل کرنے کا ارادہ کیا مگر وہ ان سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔[1] ۴۔ علی رضی اللہ عنہ شام سے جنگ کرنے کی تیاری کرتے ہیں: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام تحریر کردہ اپنے خطوط کا جواب وصول کرنے کے بعد اہل شام کے ساتھ جنگ کرنے کا عزم کر لیا۔ انہوں نے مصر میں قیس بن سعد، کوفہ میں ابوموسیٰ اشعری اور بصرہ میں عثمان بن حنیف کو خطوط لکھے کہ وہ لوگوں کو شامیوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے تیار کریں۔ آپ نے خود بھی لوگوں سے مخاطب ہو کر انہیں جنگ کی ترغیب دلائی اور پھر اس کی تیاری کا ارادہ کر لیا۔ شہر پر قثم بن عباس کو اپنا نائب مقرر فرما کر خود یہ ارادہ لے کر شہر سے نکل کھڑے ہوئے کہ مجھے اپنے اطاعت گزاروں کو ساتھ لے کر اپنے نافرمانوں کے ساتھ لڑنا ہے۔ مگر قثم نے ان کے حکم سے انحراف کیا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ آپ سے بیعت نہ کی۔ اس دوران ان کے صاحبزادے حضرت حسین رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: ابا جان! یہ کام چھوڑیں اس کی وجہ سے مسلمانوں کی خون ریزی ہو گی مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کی بات کو قبول نہ کیا اور اپنے ارادے پر ڈٹے رہے۔ آپ نے لشکر کو ترتیب دیا۔ پرچم محمد بن حنفیہ کو دیا، ابن عباس کو میمنہ پر اور عمر بن ابوسلمہ کو میسرہ پر مقرر کیا۔ ایک دوسری روایت کی رو سے میسرہ پر عمرو بن سفیان بن عبدالاسد کو اور اس کے مقدمہ پر ابوعبیدہ بن جراح کے بھتیجے لیلیٰ بن عمرو بن جراح کو مقرر کیا اور مدینہ پر قثم بن عباس کو اپنا نائب بنایا۔ اب صرف یہی کام باقی رہ گیا تھا کہ آپ مدینہ سے نکل کر شام کے لیے روانہ ہو جائیں کہ اس دوران کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو گئی جس نے آپ کو اس سے روک دیا۔[2] مزید تفصیل کے لیے میری کتاب سیرۃ امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ملاحظہ فرمائیں۔[3]
Flag Counter