Maktaba Wahhabi

135 - 503
کر دیا ہے۔ اپنی طاقت کو کمزور کر دیا اور تلواروں کو دندانے ڈال دئیے ہیں۔ مزید برآں علی رضی اللہ عنہ کے مخالف اہل بصرہ نے انہیں شکست سے دوچار کر کے اسے برباد کر دیا ہے اور جمل کے دن ان کے سردار تباہی سے دوچار ہو چکے ہیں۔ اب علی رضی اللہ عنہ ایک چھوٹی سی جماعت لے کر تمہاری طرف بڑھ رہے ہیں اور ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو تمہارے خلیفہ کے قاتل ہیں۔ اپنے حقوق ضائع کرنے اور اپنے خون باطل کرنے سے اللہ سے ڈرو۔[1] معاویہ رضی اللہ عنہ ایک بہت بڑا لشکر لے کر روانہ ہوئے۔ ان کی تعداد کتنی تھی؟ اس بارے روایات مختلف ہیں اور ان تمام کی اسانید منقطع ہیں اور یہ وہی روایات ہیں جن میں علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی تعداد بتائی گئی ہے۔ ان میں سے کسی روایت میں ایک لاکھ بیس ہزار کی تعداد بتائی گئی ہے کسی میں ستر ہزار کی اور کسی میں اس سے بھی بہت زیادہ۔ مگر اقرب الی الصواب بات یہ ہے کہ یہ لشکر ستر ہزار کی نفری پر مشتمل تھا۔[2] اگرچہ اس روایت کی سند بھی منقطع ہے، مگر اس کا راوی صفوان بن عمرو سکسکی حمصی ہے جس کا تعلق اہل شام سے ہے اور جو ۷۲ھ میں پیدا ہوا اور وہ ثقہ ہے اور جیسا کہ اس کے حالات زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے[3] اس نے جنگ صفین میں شامل ہونے والے بہت سے لوگوں کا زمانہ پایا اور اس تک کی سند صحیح ہے۔[4] معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کے قائدین کی ترتیب اس طرح سے تھی: عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اہل شام کے تمام شہسواروں کے سردار تھے۔ ضحاک بن قیس پیدل لوگوں کے، ذوالکلاع حمیری میمنۃ الجیش کے، حبیب بن مسلم میسرۃ الجیش کے اور ابو الاعور السلمی مقدمۃ الجیش کے قائد تھے۔ یہ بڑے قائدین تھے جبکہ ہر قائد کے ماتحت کئی کئی قائد تھے جنہیں قبائل کے لحاظ سے تقسیم کیا گیا تھا۔ لشکر معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ ترتیب صفین کی طرف روانگی کے دوران تھی مگر جنگ کے دوران حسب ضرورت قائدین کو تبدیل کیا جاتا رہا۔ غالباً اسی وجہ سے بعض مصادر میں قائدین کے ناموں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[5] ۸۔ پانی کے لیے لڑائی: جب علی رضی اللہ عنہ کا لشکر صفین پہنچا تو وہاں معاویہ رضی اللہ عنہ کا لشکر پہلے سے خیمہ زن تھا۔ جب انہیں لشکر کے لیے کافی اور مناسب کھلی جگہ نہ ملی تو انہیں قدرے دشوار جگہ پر خیمہ زن ہونا پڑا اس لیے کہ یہ زمین زیادہ تر پتھریلی اور ٹیلوں والی تھی۔[6] اس دوران عراقی لشکر کو اچانک یہ اطلاع ملی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان تک پانی کی ترسیل روک دی ہے۔ اس پر بعض لوگ گھبراہٹ کے عالم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے اس بارے میں شکایت کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اشعث بن قیس کی طرف پیغام بھیجا تو وہ دو سو کی نفری لے کر لشکر سے باہر نکلے اور پھر فریقین کے درمیان پہلی جنگ چھڑی جس میں اشعث کامیاب ہوا اور اس نے پانی پر قبضہ جما لیا۔[7] مگر دوسری روایت
Flag Counter