Maktaba Wahhabi

141 - 503
کرے۔ عراقی لشکر کے لیے جلیل القدر بدری اور مہاجر صحابی رسول کا یہ کردار بڑا مؤثر تھا۔ اس وقت ان کی عمر چورانوے سال سے زائد ہو رہی تھی اور عمر کے اس حصے میں بھی آپ اس قدر شجاعت و بسالت اور بلند تر معنوی روح سے متصف نظر آ رہے تھے۔ ان کے اس کردار نے عراقی لشکر کی ہمت بڑھائی اور ان کی معنوی روح کو رفعتوں سے ہم کنار کر دیا یہاں تک کہ انہوں نے جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔[1] اس دوران ہاشم بن عتبہ بن ابووقاص یہ عربی اشعار پڑھتا ہوا آگے بڑھا تو آپ نے اس سے فرمایا: ہاشم آگے بڑھو، جنت تلواروں کے سائے تلے ہے اور موت نیزوں کے کناروں میں ہے۔ آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں اور جنت کی حوریں بن سنور چکی ہیں۔ الیوم القی الاحبۃ محمدا و حزبہ[2] آج دوستوں سے ملاقات ہو گی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی جماعت سے ملاقات ہو گی۔ جمعرات کے دن غروب آفتاب کے وقت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے گھونٹ بھر دودھ طلب کیا اور پھر کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا: ’’تو دنیا سے جو آخری گھونٹ نوش کرے گا وہ دودھ کا گھونٹ ہو گا۔[3] پھر وہ آگے بڑھے اس وقت پرچم بردار ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص بھی ان کے ساتھ تھے، مگر ان میں سے کوئی بھی واپس نہ لوٹا۔[4] ۳۔ لیلۃ الہریر اور جمعہ کا دن: اس رات اتنا زور کا رن پڑا کہ گزشتہ دنوں میں اس کی مثال پیش کرنا مشکل ہے۔ رات بھر جنگ ہوتی رہی جس کے نتیجہ میں نعشوں کے انبار لگ گئے اور خون کی ندیاں بہہ نکلیں۔ اس رات کے خونریز معرکہ میں شامی کمزور نظر آ رہے تھے۔ اس دوران خود امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے بھی زبردست قتال کیا اور موت پر بیعت کی۔[5] مذکور ہے کہ اس دن علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کو مغرب کی نماز صلاۃ الخوف کے طور سے پڑھائی۔[6] امام شافعی فرماتے ہیں: صحیح طور سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہریر کی رات صلاۃ الخوف پڑھائی۔[7] ایک چشم دید گواہ کا بیان ہے کہ ہم تین دن اور تین راتیں مسلسل جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ جب نیزے ٹوٹ گئے اور تیر ختم ہو گئے،[8] تو ہم ہاتھوں سے لڑنے لگے اور چہروں پر مٹی اور پتھر پھینکنے لگے اور ایک دوسرے کو دانتوں سے کاٹنے لگے۔ جب دو آدمی باہم لڑتے لڑتے نڈھال ہو جاتے تو بیٹھ کر آرام کرنے لگتے اور اس کے بعد پھر ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہو جاتے۔ ان کی یہی صورت رہی یہاں تک کہ لوگوں نے جمعہ کے دن کی صبح کی اور صبح کی نماز اشاروں سے ادا کی حتیٰ کہ دن روشن ہو گیا اور عراقیوں کو شامیوں پر برتری حاصل ہونے لگی۔[9]
Flag Counter