Maktaba Wahhabi

142 - 503
۴۔ تحکیم کی تجویز: لیلۃ الہریر کے بعد دونوں لشکر جس سنگین ترین صورت حال سے دوچار ہو گئے تھے اس کے بعد مزید لڑائی کا کوئی احتمال باقی نہیں بچا تھا۔ اس رات کندہ کے زعیم اشعث بن قیس نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: مسلمانو! گزشتہ رات تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے تم بخوبی آگاہ ہو اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس دن عربوں کی کتنی بڑی تعداد موت کے گھاٹ اتر گئی۔ اللہ کی قسم! میں نے اپنی اس طویل عمر کے دوران اس قسم کے حالات کا مشاہدہ کبھی نہیں کیا۔ میری یہ بات توجہ سے سن لیں کہ اگر ہم ایک دوسرے سے پھر ٹکرائے تو اس میں عربوں کی تباہی بھی یقینی ہے اور حرمتوں کی پامالی بھی۔ خبردار! اللہ کی قسم! میں یہ بات جنگ سے گھبرا کر نہیں کر رہا۔ میں ایک بوڑھا آدمی ہوں۔ مجھے یہ ڈر کھائے جا رہا ہے کہ اگر کل ہم فنا ہو گئے تو ہماری عورتوں اور بچوں کا کیا بنے گا۔ یا اللہ تو جانتا ہے کہ میں نے ہمیشہ اپنی قوم اور اپنے اہل دین کے لیے سوچا اور میں نے اس حوالے سے کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی۔[1] جب یہ خبر معاویہ رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو وہ کہنے لگے: رب کعبہ کی قسم! اس نے درست کہا۔ اگر یہ خونریز جنگ جاری رہی تو مسلمانوں کی قوت تباہ ہو جائے گی تو رومی ہمارے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیں گے اور ایرانی عراقیوں کے اہل و عیال پر قبضہ جما لیں گے۔ ارباب دانش و بینش اور عاقبت اندیش لوگوں کو یہ صورت حال صاف نظر آ رہی ہے، پھر انہوں نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ نیزوں کے کناروں پر قرآن باندھ دو۔[2] یہ عراقی روایت ہے۔ اس میں نہ تو عمرو بن العاص کا ذکر ہے اور نہ کسی دھوکہ دہی یا حیلہ گری کا ہی۔ اصل بات یہ ہے کہ باہمی صلح و صفائی فریقین کی خواہش تھی۔ یہ چیز معاویہ رضی اللہ عنہ یا عمرو رضی اللہ عنہ کے لیے حیران کن نہیں ہے کہ وہ باہم متصادم امت کی بچی کھچی طاقت کو بچانے کے لیے کوئی دلیرانہ اقدام کریں۔ یہ بات امت کے ان دشمنوں کے لیے پریشان کن ہے جنہوں نے اس فتنہ کی آگ بھڑکائی اور پھر ہمارے لیے اپنے پیچھے ایسی گمراہ کن روایات کے پلندے چھوڑ گئے جو حق کو باطل اور فضل و شرف کو جرم، سازش اور حیلہ گری میں تبدیل کر دیتی ہیں۔[3] ان اعدائے امت نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی جانب ایسے جھوٹے اقوال منسوب کر دئیے جو صحیح روایات سے یکسر متعارض ہیں۔ مثلاً ان کا یہ قول کہ شامی سپاہ کی طرف سے نیزوں پر قرآن بلند کرنا محض دھوکہ اور فریب ہے۔[4] اسی طرح قرآن بلند کرنے کے بارے میں ان کا یہ قول کہ یہ سب کچھ بدکار عورت کے بیٹے کے مشورہ سے ہوا۔[5] ان اعدائے امت اور اعداء اسلام نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے خلاف اس قدر جھوٹا پروپیگنڈہ کیا کہ آپ تاریخ کی جو کتاب بھی اٹھائیں گے اس میں ان کی تنقیص ضرور نظر آئے گی اور انہیں دھوکہ باز اور مکار کے القاب سے نوازا گیا ہو گا، اور یہ سب کچھ ان روایات کی وجہ سے ہے جنہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمنوں نے وضع کیا اور ابن اثیر، طبری و دیگر نے انہیں اپنی کتابوں میں نقل کر دیا اور پھر اسی بیماری میں عصر حاضر کے اکثر مورخین بھی مبتلا ہو
Flag Counter