Maktaba Wahhabi

145 - 503
کہ جنگ ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کرے گی تو ہم اپنے ہی خلاف اس جرم کا ارتکاب نہ کرتے۔ اگر ہماری عقل و شعور پر پردے پڑ چکے ہیں تو جو کچھ ہو چکا اس پر ہم ندامت کا اظہار تو کر سکتے ہیں اور جس قدر عقل بچ گئی ہے اس کی اصلاح تو کر سکتے ہیں۔[1] ب: مقتولین کی لاشوں کا گرنا، بکثرت خون بہانا اور تباہی سے دوچار ہونے کا خوف، دریں حالات جنگ بند کرنے کا مطالبہ سب کے دلوں کی آواز تھی۔ ج: عرصہ دراز تک جاری رہنے والے قتل و قتال سے لوگ اکتا گئے تھے اور وہ صلح کی آواز سننے کے لیے بڑی بے تابی سے منتظر تھے۔ حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی غالب اکثریت بار بار کہا کرتی تھی، ہمیں جنگ کھا گئی۔ اب ہماری بقاء صرف صلح کرنے میں ہے۔[2] مذکورہ بالا امور اس بیمار رویے کی تردید کرتے ہیں کہ قرآن بلند کرنا عمرو بن العاص کا دھوکہ تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن بلند کرنے کی فکر کوئی نئی بات نہیں تھی اور نہ ہی یہ عمرو بن العاص کی اختراع تھی۔ بلکہ قبل ازیں جنگ جمل کے موقع پر یہ کام بصرہ کے قاضی کعب بن سور کر چکے تھے۔ جنہیں اس وجہ سے تیر مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ (د) صلح و اصلاح کی داعی اس وحی الٰہی کی آواز پر لبیک کہنا: ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ﴾ (النساء: ۵۹) ’’اگر تم کسی چیز میں تنازع کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو۔‘‘ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے تحکیم کی تجویز پیش کی گئی تو انہوں نے فرمایا: ’’ہاں میں اس کا زیادہ حق دار ہوں، ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ ہے۔‘‘ ۵۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کی شہادت اور مسلمانوں پر اس کے اثرات: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا: ((تَقْتُلُکَ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ)) ’’تمہیں باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘ اس حدیث کا شمار صحیح اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ احادیث میں ہوتا ہے۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی شہادت کا جنگ صفین پر بڑا گہرا اثر ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے مینارۂ نور تھے، وہ جہاں بھی جاتے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اتباع کرتے، خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں شامل تھے اور انہوں نے اپنا اسلحہ سمیٹ رکھا تھا، پھر جب انہوں نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو شہید ہوتے دیکھا تو اپنی تلوار سونت کر اہل شام سے لڑنے لگے، اور یہ اس لیے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے بارے میں سن رکھا تھا: ’’انہیں باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘[3] پھر وہ مسلسل جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ جان سے ہاتھ
Flag Counter