Maktaba Wahhabi

153 - 503
۸۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک: جنگ صفین کے قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک پر مبنی رویہ فریقین کے نزدیک ایک بدیہی امر تھا۔ اسلام نے قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے معاملہ کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کی عزت کرنے اور گنجائش کے مطابق انہیں اچھے طریقے سے اچھا کھانا کھلانے کی ترغیب دی ہے، یہ کریمانہ رویہ تو غیر مسلم قیدیوں کے ساتھ مطلوب ہے اور اگر وہ مسلمان ہوں تو یقینا ان کا اکرام کرنا اور ان کے ساتھ احسان کرنا بطریقِ اولیٰ ہو گا۔ مگر چونکہ اس جنگ میں قیدی کو اپنی جماعت کی قوت کے طور سے دیکھا جاتا تھا۔[1] لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے اسے قید میں رکھا جاتا اگر وہ آپ رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لیتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور اگر اس سے انکار کرتا تو اس سے اس کا اسلحہ اور سواری لے لی جاتی، اور یہ چیزیں اسے قیدی بنانے والے کو دے دی جاتیں اور اس سے یہ حلف لیا جاتا کہ وہ آئندہ ہمارے خلاف جنگ نہیں کرے گا، ایک روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ اسے چار درہم عطا فرماتے۔[2] خلیفہ راشد کا مقصد اس سے بالکل واضح تھا اور وہ تھا باغی گروہ کے پلڑے کو کمزور کرنا۔ جنگ صفین کے موقع پر ایک قیدی کو لایا گیا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا: مجھے باندھ کر قتل نہ کرنا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تجھے اس طرح قتل نہیں کروں گا، مجھے اللہ رب العالمین سے خوف آتا ہے۔ پھر آپ نے اسے رہا کرتے ہوئے فرمایا: کیا تجھ سے کسی خیر کی امید کی جا سکتی ہے۔[3] مذکورہ صدر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جنگی قیدیوں کے ساتھ معاملہ اس طرح سے تھا: ٭ قیدی کی عزت کرنا اور اس پر احسان کرنا۔ ٭ اسے بیعت کرنے اور اطاعت امیر کے دائرہ میں داخل ہونے کی دعوت دینا اور یہ دعوت قبول کرنے کی صورت میں اسے چھوڑ دینا۔ ٭ بیعت سے انکار کی صورت میں اس کے ہتھیاروں پر قبضہ کر لینا اور آئندہ جنگ نہ کرنے کے حلف پر اسے آزاد کر دینا۔ ٭ اور اگر وہ جنگ کرنے پر مصر رہے تو دوران قید اس کی نگہداشت کرنا اور اسے باندھ کر قتل نہ کرنا۔[4] ایک دفعہ علی رضی اللہ عنہ کے سامنے پندرہ قیدی پیش کیے گئے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ زخمی تھے۔ اگر ان میں سے کوئی مر جاتا تو آپ اسے غسل دیتے، کفن پہناتے اور اس کی نماز جنازہ پڑھتے۔[5] محب الدین خطیب اس جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس کے باوجود یہ شامی جنگ انسانی تاریخ
Flag Counter