Maktaba Wahhabi

154 - 503
کی وہ پہلی جنگ ہے جس میں دونوں متحارب گروہوں نے ان اعلیٰ اخلاقی قدروں کی پاس داری کی جن پر عمل درآمد کرنے کے لیے مغربی دانشور متمنی رہے ہیں چاہے ایسا اکیسویں صدی میں ہی ہو پائے۔ اسلام میں بیشتر جنگی قوانین کی تدوین اسی جنگ کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکی اور اللہ کا ہر امر مبنی برحکمت ہوا کرتا ہے۔[1] ابن عدیم فرماتے ہیں: یہ باغیوں کے لیے احکامات ہیں۔ اس لیے امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں: اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ رویہ ہمارے سامنے نہ آتا تو کسی کو مسلمانوں کی جنگوں میں سیرت و کردار کا علم نہ ہوتا۔[2] ۹۔ جنگ صفین میں مقتولین کی تعداد: اس جنگ میں مقتولین کی تعداد کے بارے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں، ابن ابی خیثمہ ذکر کرتے ہیں ان کی تعداد ستر ہزار تھی، ان میں پچیس ہزار اہل عراق سے اور پینتالیس ہزار شام سے تھے۔[3] جبکہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کی تعداد ستر ہزار یا اس سے بھی زائد تھی۔[4] ہمارے نزدیک یہ شماریات غیر حقیقی بلکہ محض خیالی ہیں۔ اس لیے کہ حقیقی اور عام جنگ محض تین دن جاری رہی اور اسی دوران بھی جمعہ کی رات کے علاوہ رات کے وقت اسے موقوف کر دیا جاتا، اس اعتبار سے جنگ کا دورانیہ صرف تیس گھنٹے تھا۔[5] یہ جنگ جس قدر بھی شدید تھی جنگ قادسیہ سے زیادہ شدید نہ تھی جس میں شہداء کی کل تعداد ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد نہیں تھی۔[6] علاوہ ازیں مقتولین کی اس بھاری تعداد پر مشتمل روایات کو عقل بھی قبول کرنے سے قاصر ہے۔ ۱۰۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے مقتولین کی خبرگیری اور ان کے بارے میں جذبہ رحم: امیر المومنین علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ جنگی کارروائیوں کے اختتام پر مقتولین کی خبر گیری کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے، ایک چشم دید گواہ کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہباء خچر پر سوار مقتولین کے درمیان گھوم رہے ہیں،[7] اس دوران اشتر بھی آپ کے ساتھ تھا، آپ کا گزر ایک ایسے مقتول پر ہوا جس کا شمار شام کے مشہور قاضیوں اور عبادت گزاروں میں ہوتا تھا، اسے دیکھ کر اشتر یا عدی بن حاتم کہنے لگا: امیر المومنین: کیا حابس[8] بھی ان کے ساتھ مارا گیا؟ اللہ کی قسم! اس کے بارے میں میرا تجربہ یہ ہے کہ یہ شخص مومن تھا۔ یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: آج یہ واقعی مومن ہے۔ غالباً یہ مقتول شخص وہی قاضی تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: امیر المومنین! میں نے ایک پریشان کن خواب دیکھا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا: کون سا خواب؟ وہ کہنے لگا: میں نے خواب میں دیکھا کہ سورج اور چاند باہم لڑ رہے ہیں اور آدھے ستارے سورج کے ساتھ ہیں اور آدھے
Flag Counter