Maktaba Wahhabi

158 - 503
رب کعبہ کی قسم! وہ گویا ہوئے: تو پھر آپ ہمیں ایسا کرنے سے کیوں روکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ تم لعن طعن کرنے والے بن جاؤ۔ تم یہ دعا کیا کرو: اے اللہ! ہمارے اور ان کے خون محفوظ فرما، ہمارے معاملات کی اصلاح کیجیے، اور انہیں گمراہی سے دور لے جایئے۔[1] اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قنوت میں معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب و رفقاء پر لعنت کیا کرتے اور معاویہ رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہما ، حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ پر لعنت کیا کرتے تھے تو یہ صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شارع علیہ السلام کے احکام پر سختی کے ساتھ عمل پیرا تھے اور انہوں نے مسلمانوں کو گالی گلوچ کرنے اور ان پر لعن طعن کرنے سے منع فرمایا ہے۔[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن پر لعنت کرنا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔‘‘[3] اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’مومن لعن طعن کرنے والا نہیں ہوتا۔‘‘[4] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد گرامی ہے: ’’لعنتیں کرنے والے قیامت کے دن نہ تو کسی کی شفاعت کر سکیں گے اور نہ کسی کے حق میں گواہی دے سکیں گے۔‘‘[5] علاوہ ازیں طرفین کے سرکردہ لوگوں کی ایک دوسرے پر لعنت کرنے کی مذکورہ روایت سند کے اعتبار سے بھی ثابت نہیں ہے، اس لیے کہ اس کا ایک راوی ابو مخنف لوط بن یحییٰ رافضی ہے جس کی روایات قابل اعتماد نہیں ہیں، مزید براں روافض کے نزدیک ان کی صحیح ترین کتابوں میں بھی صحابہ کرام کو گالی گلوچ کرنے سے نہی وارد ہے، خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کار کو گالیاں دینے والوں کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا: میں تمہارے لیے اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ تم گالیاں دینے والے بن جاؤ، اگر تم اس کی بجائے ان کے اعمال و اوصاف کا تذکرہ کرو تو یہ زیادہ بہتر رہے گا، تم انہیں گالی گلوچ کرنے کی بجائے یہ دعا کیا کرو: یا اللہ! ہمارے اور ان کے خون کی حفاظت فرما اور ہمارے آپسی معاملات کی اصلاح فرما۔[6] سب و شتم اور تکفیر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وطیرہ نہیں تھا، جس کا اعتراف اہل تشیع کی صحیح ترین کتب میں بھی کیا گیا ہے۔[7] سادسًا…تحکیم جنگ صفین کے اختتام پر فریقین میں تحکیم پر اتفاق ہوا، اس کا طریقہ کار یہ طے پایا کہ فریقین اپنی اپنی طرف سے ایک ایک آدمی کو حکم مقرر کریں گے اور پھر وہ دونوں مسلمانوں کی مصلحت پر مشتمل بالاتفاق کوئی فیصلہ کریں گے اس کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا تقرر کیا اور
Flag Counter