Maktaba Wahhabi

179 - 503
چوتھي بحث: حسن بن علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہما کے عہد میں عبدالرحمن بن ملجم مرادی خارجی کے ہاتھوں امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد رمضان ۴۰ھ میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی امیر المومنین کے طور سے بیعت ہوئی۔[1] جن کا آپ کے والد کے بعد لوگوں نے انتخاب کیا تھا، عبداللہ بن سبع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا آپ فرما رہے تھے: میری داڑھی کو میرے سر کے خون سے رنگ دیا جائے گا۔ بدنصیب میرے بارے میں کیا انتظار کر رہا ہے۔[2] لوگوں نے کہا: امیر المومنین! آپ اپنے قاتل کے بارے میں ہمیں آگاہ فرمائیں، ہم اس کے قرابت داروں کو موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔ آپ نے فرمایا: اس طرح تو تم میرے بدلہ میں میرے قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل کر دو گے۔ انہوں نے کہا: آپ کسی کو ہمارا خلیفہ مقرر کر دیں، انہوں نے فرمایا: نہیں، میں تمہیں اس کے لیے چھوڑ جاؤں گا جس کے لیے تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا تھا۔ وہ کہنے لگے: جب اپنے رب کے پاس جاؤ گے تو اس وقت کیا کہو گے؟ فرمایا: میں یہ کہوں گا کہ میرے اللہ! جب تک تو نے چاہا مجھے ان میں باقی رکھا پھر تو نے مجھے اپنی طرف قبض کر لیا اگر تو چاہے تو ان کی اصلاح کر دے اور اگر چاہے تو انہیں خراب کر دے۔[3] دوسری روایت میں ہے: میں کہوں گا: یااللہ! جب تک تو نے چاہا مجھے ان کا خلیفہ بنائے رکھا پھر تو نے مجھے قبض کر لیا اور میں تجھے ان میں چھوڑ آیا۔[4] حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ چار تکبیروں کے ساتھ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور انہیں کوفہ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ حسن رضی اللہ عنہ کی سب سے پہلے قیس بن سعد نے بیعت کی، انہوں نے کہا: اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں میں کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور عہد شکن لوگوں کے ساتھ قتال پر آپ سے بیعت کرتا ہوں۔ اس کے جواب میں حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: کتاب اللہ اور اس کے نبی کی سنت پر، اس لیے کہ یہ ہر شرط کا احاطہ کرتی ہے، چنانچہ اس نے آپ سے بیعت کی اور خاموش ہو گیا اس کے بعد دوسرے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔[5] جب اہل عراق نے آپ سے بیعت کرنے کا ارادہ کیا تو آپ نے ان سے فرمایا: تم میری بات سنو گے بھی اور میری اطاعت بھی کرو گے جس سے میں صلح کروں گا اس سے تم بھی صلح کرو گے اور جس سے میں جنگ کروں گا اس سے تم بھی جنگ کرو گے۔[6] دوسری
Flag Counter