Maktaba Wahhabi

207 - 503
اس کا شکر ادا کرتا ہے۔ آزمائش آئے تو صبر کرتا ہے۔ غصہ آئے تو اسے پی جاتا ہے، قدرت میسر آئے تو معاف کر دیتا ہے، غلطی کر بیٹھے تو معافی کا طلب گار ہوتا ہے اور کسی سے وعدہ کرے تو اسے پورا کرتا ہے۔[1] معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس خبر میں حکمت و دانش کے موتی جمع کر دئیے ہیں، اور وہ ہیں: خوش حالی کے وقت شکر کرنا، ابتلاء و آزمائش کے موقع پر صبر کرنا، ناراضی کے وقت رویے کو کنٹرول میں رکھنا، طاقت ملنے پر عفو و درگزر سے کام لینا، وعدہ پورا کرنا اور غلطی کے ارتکاب پر توبہ و استغفار کرنا، اس مختصر سی خبر میں چھ موضوعات کو جمع کر دیا گیا ہے۔ جن میں سے ہر موضوع پر متعدد صفحات لکھے جا سکتے ہیں، یہ جامع کلمات ہیں جن کا شمار بلاغت کی اعلیٰ ترین اقسام میں ہوتا ہے، گویا کہ انہوں نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ اس قسم کی گفتگو کے حوالے سے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بڑی شہرت کے حامل ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف عظیم حاصل ہوا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو جامع کلمات سے نوازا گیا تھا۔[2] ۳۔ ذہانت و فطانت اور حیلہ گری: وہ اوصاف حمیدہ جن میں معاویہ رضی اللہ عنہ امتیازی شان کے حامل ہیں ان میں سرفہرست ان کا رعب و دبدبہ ذہانت و فطانت اور حیلہ گری ہے۔ آپ کی انتظامی صلاحیتوں اور حسن تدبیر کے حوالے سے منقول ہے کہ ان کے زمانہ میں مسلمانوں نے ایک جنگ میں شرکت کی تو ان کے بعض ساتھیوں کو قیدی بنا لیا گیا، جب انہیں شاہ روم کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے ان میں سے کسی قیدی کے ساتھ بات چیت کی۔ اس وقت شاہ روم کے سامنے ایک پادری کھڑا تھا وہ آگے بڑھا اور اس کے منہ پر تھپڑ مار دیا، جس قیدی کو تھپڑ مارا گیا وہ قریشی تھا، اس سے یہ توہین برداشت نہ ہو سکی اور وہ وہیں کھڑے کھڑے پکار اٹھا: ہائے اسلام! معاویہ تم کہاں ہو؟ تم نے ہمیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا، ہماری سرحدوں کو ضائع کر دیا اور ہمارے دشمن کو ہمارے خون اور عزتوں کے بارے فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا۔ جب یہ خبر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملی تو اس سے انہیں اس قدر شدید دکھ پہنچا کہ لذیذ خوراک لینے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ لوگوں سے میل جول ترک کر دیا مگر کسی کو اس واقعہ سے مطلع نہ کیا اور پھر حیلہ گری سے کام لیتے ہوئے اسے اور اس کے دیگر قیدی ساتھیوں کو فدیہ دے کر رومیوں سے رہا کروا لیا، رہائی کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے پاس بلایا، اس کی جی بھر کر خدمت کی اور فرمایا: ہم نے نہ تو تجھے ضائع کیا اور نہ تیرے خون اور تیری عزت کو کسی کے لیے مباح قرار دیا، اسی دوران وہ رومیوں کے ہاتھوں اپنے ایک مسلمان مجاہد کی بے عزتی کا انتقام لینے کے بارے میں مختلف پہلوؤں پر سوچ و بچار کرنے میں مصروف رہے۔ آخر کار انہوں نے ساحل دمشق سے بحری جنگوں کے حوالے سے ایک تجربہ کار شخص کو اپنے پاس بلایا اور اسے اپنے پروگرام سے آگاہ کرتے ہوئے اسے بڑے محتاط انداز میں کامیاب بنانے کے لیے کہا۔ پھر دونوں کا اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ وہ بھاری رقوم خرچ کر کے مختلف قسم کی عمدہ اشیاء خورد و نوش، خوشبو اور جواہرات خریدے گا اور پھر ان کے ذریعے سے بادشاہ تک رسائی
Flag Counter