Maktaba Wahhabi

219 - 503
شخص کے جس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو سب و شتم کیا اسے انہوں نے کئی کوڑوں کی سزا دی۔[1] ۱۱۔ محمد بن عبداللہ بن عمار موصلی و دیگران کے اقوال: معافی بن عمران سے پوچھا گیا: معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ؟ تو وہ ناراض ہو کر سائل سے کہنے لگے: کیا تو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تابعی کے برابر قرار دینا چاہتا ہے؟ معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی، سسرالی رشتے دار، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب اور وحی الٰہی کے امین ہیں۔[2] ۱۲۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا: آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے جو یہ کہتا ہے کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی اور خال المومنین نہیں مانتا اس لیے کہ انہوں نے امارت تلوار کے زور پر غصب کی۔ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا: یہ بہت بری اور گھٹیا بات ہے، ایسے لوگوں سے الگ رہا جائے، ان کے ساتھ نشست و برخاست نہ کی جائے اور انہیں لوگوں کے سامنے ننگا کیا جائے۔ ۱۳۔ ربیع بن نافع حلبی رحمہ اللہ: ان کا قول ہے: معاویہ رضی اللہ عنہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پردہ ہیں، جب کوئی آدمی پردہ ہٹاتا ہے تو وہ پس پردہ چیز پر دلیر ہو جاتا ہے۔[3] ۱۴۔ ابن ابو العز حنفی رحمہ اللہ: آپ کا قول ہے: مسلمانوں کے پہلے بادشاہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں اور وہ ان کے بہترین بادشاہ ہیں۔[4] ۱۵۔ قاضی ابن العربی المالکی رحمہ اللہ: ابن العربی معاویہ رضی اللہ عنہ کی خصال حمیدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: انہوں نے سرحدوں کو محفوظ بنایا۔ فوج کی اصلاح کی، دشمن پر غالب رہے اور مخلوق کی منفعت کے لیے کوشاں رہے۔[5] دوسری جگہ فرماتے ہیں: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں منصب ولایت پر فائز کیا، اور عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں اس منصب پر برقرار رکھا۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ انہیں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے والی مقرر کیا تھا، اس لیے کہ انہوں نے ان کے بھائی یزید(بن ابو سفیان) کو والی مقرر فرمایا اور یزید نے اسے اپنا جانشین مقرر کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اس عہدہ پر برقرار رکھا اور پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی یہی کچھ کیا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ سلسلہ کس قدر ٹھوس اور پائیدار ہے۔‘‘[6] اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا کاتب مقرر فرمایا تھا … پھر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ صلح کرتے ہوئے ان کی خلافت کا اقرار کر لیا۔[7]
Flag Counter