Maktaba Wahhabi

234 - 503
خامساً: …شوریٰ عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں: جب بنو امیہ کو خلافت ملی تو معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما ایسے شخص نہیں تھے جو شوریٰ کے فوائد سے ناآشنائی اور اسے اپنانے سے قاصر رہے ہوں۔ وہ جو بھی اہم کام کرنا چاہتے اس کے لیے مشورہ ضرور کرتے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ اصحاب رائے امراء و ولاۃ، سرکردہ لوگوں، اہل علم اور معززین قوم سے مشورہ کیا کرتے تھے ان کے بعد آنے والے خلفاء بنی امیہ نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بڑے مشیروں میں عمرو بن العاص اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما سرفہرست تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے پاس آنے والے مختلف وفود سے بھی مشاورت کیا کرتے تھے۔[1] دوران مشاورت لوگ ان سے آزادانہ انداز میں گفتگو کرتے اور اپنی آراء کا اظہار کرتے اور خلیفہ انہیں بڑی اہمیت دیتے، ان سے مناقشہ کرتے اور جن آراء پر عمل کرنا ممکن ہوتا ان پر عمل پیرا ہوتے، انہیں عملی شکل دینے والے ذمہ دار عہدے داروں کو آزادانہ مواقع دیتے۔ ان پر مکمل اعتماد کرتے اور انہیں حکومتی قوت سے نوازتے۔ خلیفہ کی ذات حکومت کا مرکز نہیں تھی، اس لیے کہ اس کی حکومت بڑی وسیع و عریض تھی اور تن تنہا اس کے جملہ امور کی انجام دہی تنہا خلیفہ کے بس کا روگ نہیں تھا، وہ مختلف علاقوں پر ولاۃ و امراء کا تقرر کرتا اور انہیں پوری آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیتا، وہ منصب ولایت پر اپنے قابل اعتماد لوگوں کا ہی تقرر کرتا اور صرف انہی لوگوں کو اختیارات تفویض کرتا جن سے اسے کوئی خوف و خطرہ محسوس نہ ہوتا۔[2] وہ اپنے ولاۃ و امراء سے معینہ حدود میں رہ کر ہی مشاورت کرتا، جہاں تک امر خلافت کا تعلق ہے تو وہ بنو امیہ میں ہی محصور اور اموی خانوادے کے ساتھ ہی خاص تھا، اموی خلفاء حکمران کے انتخاب کے لیے غالباً اموی جماعت پر مشتمل شوریٰ ہی کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔[3] بنا بریں کہا جا سکتا ہے کہ بنو امیہ کے دور حکومت میں دو قسم کی شوریٰ تھی، ایک شوریٰ کا تعلق مصالح عامہ کے ساتھ تھا جو قوم کے اصحاب رائے، معززین اور امراء و ولاۃ پر مشتمل تھی جس سے اموی خلفاء مشاورت کیا کرتے تھے اور دوسری شوریٰ خاص طور سے سلطان وقت سے متعلق تھی جو ان کے خانوادے پر مشتمل تھی اور جو خلافت کے معاملات نمٹایا کرتی تھی۔[4] معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت خالصتاً شخصی حکومت نہیں تھی۔ افراد معاشرہ اور حکومت میں اسلام کا وجود ازروئے سلوک اور نظام حکومت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مسعود اور خلفاء راشدین کے زمانے میں شخصی قیادت اور اس کی برائیوں کے مظاہر سے مبرا تھا۔ جبکہ سیاست، قیادت، ادارہ اور رعایت مصالح جیسے حوالوں میں شوریٰ کا رنگ نمایاں تھا۔[5] خلافت راشدہ کی موروثی بادشاہت میں تبدیلی ایسی کامل تبدیلی نہیں تھی کہ جس میں خلفاء راشدین کی شوریٰ
Flag Counter