Maktaba Wahhabi

237 - 503
۱۔ ابو مسلم خولانی: ابو مسلم رحمہ اللہ کا شمار ربانی علماء میں ہوتا تھا۔ آپ حق گوئی کے بارے میں مداہنت سے کام لینے کے عادی نہیں تھے۔ ایک دفعہ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے کھڑے ہوئے اور انہیں پند و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: عربوں کے کسی خاص قبیلہ کی طرف رجحان رکھنے سے بچیں۔ آپ کی طرف سے روا رکھا جانے والا یہ ظلم آپ کے عدل کو ختم کر دے گی۔[1] ابو مسلم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کی رعیت کے سامنے ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے اور فرائض کی ادائیگی کی تلقین فرماتے، ایک دن وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہنے لگے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا الْاَجِیْرُ (مزدور)۔ لوگوں نے کہا: یوں نہیں بلکہ یوں کہیں: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا الْاَمِیْرُ۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابو مسلم کو کچھ نہ کہیں۔ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اسے بہتر جانتے ہیں۔ ابو مسلم کہنے لگے: آپ کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس نے کسی کو اجرت پر حاصل کیا اور اپنے مویشی اس شرط پر اس کے حوالے کر دئیے کہ اگر وہ انہیں اچھی طرح چرائے گا ان کے گوشت اور دودھ میں اضافہ کرے گا تو اجرت کا حق دار ہو گا۔ اب اگر اس نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے جانوروں کو اچھی طرح چرایا اور انہیں خوب موٹا تازہ کر دیا تو مالک خوش ہو کر اسے اس کی مزدوری کے علاوہ اپنی طرف سے کچھ اور بھی دے گا اور اگر وہ اس میں کوتاہی کرتے ہوئے جانوروں کو پہلے سے بھی کمزور کر دے گا تو مالک اس پر غضب ناک ہو گا۔ یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: مَا شَائَ اللّٰہُ۔[2] آپ نے دیکھا کہ کس طرح ابو مسلم خولانی نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو رعیت کے معاملات میں دلچسپی لینے اور ان کے مسائل حل کرنے کی ترغیب دلائی اور ان کے امور کی اصلاح میں سستی برتنے یا کوتاہی کرنے سے خبردار کیا، اور اس کے لیے انہوں نے ایک ضرب المثل سے کام لیا۔[3] اسی طرح جب ایک دفعہ معاویہ رضی اللہ عنہ منبر پر تشریف فرما ہوئے اس وقت انہوں نے لوگوں کے عطیات روک رکھے تھے تو ابومسلم کھڑے ہو کر کہنے لگے: معاویہ! آپ نے نے لوگوں کے عطیات کیوں روک رکھے ہیں؟ یہ آپ کی ، آپ کے باپ اور آپ کی ماں کی کدو کاوش کا نتیجہ نہیں ہیں کہ آپ انہیں اپنی مرضی سے روک لیں۔ یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ شدید طور پر غضب ناک ہو گئے، منبر سے نیچے اترے اور لوگوں سے کہا: تم لوگ اپنی اپنی جگہ پر موجود رہو اور پھر خود تھوڑی دیر کے لیے ان کی آنکھوں سے غائب ہو گئے، پھر جب واپس لوٹے تو کہنے لگے: ابومسلم کی بات نے مجھے غضب ناک کر دیا تھا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ’’غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے، لہٰذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ غسل کر لیا کرے۔‘‘[4] میں اندر گیا اور غسل کر لیا۔ ابو مسلم کا یہ کہنا درست ہے کہ یہ مال میری اور میرے باپ کی محنت کا نتیجہ نہیں ہے۔ اپنے عطیات وصول کرنے کے لیے آؤ۔[5]
Flag Counter