Maktaba Wahhabi

245 - 503
میں نے یہ دعا ہفتہ بھر بھی نہیں کی ہو گی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مجھے ڈیڑھ لاکھ درہم بھجوا دئیے۔ میں نے کہا: سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو اپنا ذکر کرنے والوں کو نہیں بھولتا اور اپنے سے دعا کرنے والوں کو ناکام نہیں لوٹاتا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حسن تم کیسے ہو؟‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں خیریت سے ہوں، اور میں نے آپ کو اپنا واقعہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بیٹے! جو لوگ خالق سے امید رکھتے اور مخلوق سے نہیں رکھتے ان کی امیدیں اسی طرح پوری ہوتی ہیں۔‘‘[1] زہری روایت کرتے ہیں: … جب علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اگر تمہیں یزید پر بجز اس کے اور کوئی فضیلت حاصل نہ ہوتی کہ تمہاری ماں قریشی خاتون ہے جبکہ اس کی ماں بنو کلب سے ہے تو تمہیں پھر بھی اس پر فضیلت ہوتی، مگر اس پر تمہاری فضیلت کا تو کوئی ٹھکانا ہی نہیں ہے اس لیے کہ تمہاری ماں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔[2] ثانیا:… معاویہ رضی اللہ عنہ کے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تعلقات جعفر بن محمد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما معاویہ رضی اللہ عنہ سے عطیات قبول کیا کرتے تھے۔[3] ایک دفعہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے لیے ایک لاکھ درہم بھیجے تو وہ اپنے پاس موجود لوگوں سے کہنے لگے: اس میں سے جو شخص کچھ لے لے وہ اس کا ہوا۔ انہوں نے حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے لیے ایک لاکھ درہم بھجوائے تو ان کے پاس دس لوگ بیٹھے تھے انہوں نے وہ درہم دس دس ہزار کر کے ان میں تقسیم کر دئیے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ایک لاکھ درہم دینے کا حکم دیا۔[4] معاویہ رضی اللہ عنہ کی حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے ملاقات ہوتی تو فرماتے: نواسہ رسول! اہلا و سہلا مرحبا۔ پھر ان کے لیے تین لاکھ درہم کا حکم دیتے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے ملاقات کرتے تو فرماتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی اور ان کے حواری کے بیٹے! میں تمہیں خوش آمدید کہتا ہوں اور پھر انہیں ایک لاکھ درہم دینے کا حکم دیتے۔[5] عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد انہیں اچھے الفاظ سے یاد کیا کرتے تھے۔ ہشام بن عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ ایک دن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے نماز پڑھی اور پھر نماز ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے خاموش رہے اور پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے: ابن ہند دور نہ ہو ان میں کچھ ایسی گنجائش موجود ہیں جو ہمیں ان کے بعد کسی میں نظر نہیں آتیں۔ اللہ کی قسم! ہم انہیں خوفزدہ کرتے تھے مگر وہ تو شیر سے بھی زیادہ دلیر تھے۔ وہ ہم سے کیسے خوفزدہ ہو سکتے تھے، ہم انہیں دھوکہ دینا چاہتے مگر وہ بڑے دانا اور بارعب تھے وہ ہمارے دھوکے میں آنے والے نہیں تھے۔ و اللہ! میں چاہتا ہوں کہ جب تک اس
Flag Counter