Maktaba Wahhabi

246 - 503
(جبل ابو قبیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) میں ایک پتھر بھی موجود رہے ہم ان سے فائدہ اٹھاتے رہیں۔[1] عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا یہ قول اس وقت کا ہے جب عبدالملک بن مروان کے عہد میں انہیں حصار میں لے لیا گیا تھا۔[2] ثالثا:… عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بڑا احترام کیا کرتے تھے، ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کے پاس جاتے تو وہ ان کی تعظیم و توقیر کرتے انہیں اپنے پاس بٹھاتے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے بڑے مشکل اور پیچیدہ قسم کے سوالات کرتے اور وہ فوراً ان کا جواب دیتے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر کسی کو حاضر جواب نہیں دیکھا، جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی وفات کی خبر ملی تو اتفاق سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی ان کے پاس موجود تھے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے حسن رضی اللہ عنہ کی وفات پر بڑے اچھے انداز سے تعزیت کی اور انہوں نے اس کا بہت خوبصورت جواب دیا۔[3] معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے یزید کو تعزیت کے لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا تو اس نے ان کے سامنے بیٹھ کر ان سے بڑی مختصر اور فصیح عبارت میں تعزیت کی جس کے لیے انہوں نے یزید کا شکریہ ادا کیا۔[4] حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی وفات پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے تعزیت کرتے ہوئے کہا تھا: اللہ تعالیٰ تمہیں حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی وجہ سے غم ناک نہ کرے۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا: جب تک امیر المومنین زندہ ہیں اللہ تعالیٰ مجھے غم ناک نہیں کرے گا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہزاروں درہم نقد اور کئی اشیاء عطیہ کے طور پر ان کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے فرمایا: انہیں اپنے اہل و عیال میں تقسیم کر دینا۔[5] حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا شمار اسلامی معاشرے کے سادات اور اس کے بڑے قائدین میں ہوتا تھا اور معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے سماجی اور علمی مقام و مرتبہ کا اعتراف کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو علمی معاملات میں خلیفہ کے مشیر کا اعزاز حاصل تھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کو بنو امیہ پر بنوہاشم کی فضیلت کا بھی اعتراف تھا۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا تم افضل ہو یا بنو ہاشم؟ تو انہوں نے کہا: کبھی ان کا اور کبھی ہمارا پلڑا بھاری ہوتا رہا یہاں تک کہ اگلوں اور پچھلوں میں بے مثل اور بے مثال محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہمیشہ کے لیے سربلند کر دیا۔[6] معاویہ رضی اللہ عنہ بنو امیہ کو آل علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بدسلوکی کرنے سے یہ کہہ کر خبردار کیا کرتے تھے: جنگ کا آغاز سرگوشی، اس کا درمیان شکایت اور آخر بلویٰ ہوا کرتا ہے۔ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقربین سے ان کے اوصاف اور ان کے عمدہ اعمال و اطوار کے بارے میں دریافت کیا کرتے تھے۔[7]
Flag Counter