Maktaba Wahhabi

255 - 503
مورخ ابو مخنف پر اعتماد کرتے ہیں، جو کہ اہل سنت علماء کے نزدیک غیر ثقہ اور ناقابل اعتماد ہے۔ طبری نے اس سے سولہ روایات نقل کی ہیں۔ عمومی طور سے حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبر متعدد مصادر میں وارد ہوئی ہے اور اس پر شیعی روایات کی اجارہ داری نہیں ہے۔ لیکن علماء جرح و تعدیل کے نزدیک ساقط الاعتبار ابو مخنف کی روایت اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو علی رضی اللہ عنہ کی مذمت کرنے اور انہیں سب و شتم کرنے کی وصیت کی، ان کی اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے مغیرہ رضی اللہ عنہ کوفہ پر اپنی ولایت کے سارے عرصہ میں خطبہ کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مذمت کرتے رہے۔ ان کے جس خطبہ نے حجر بن عدی کو غضب ناک کر دیا وہ ابو مخنف کی وارد کردہ روایت کی رو سے حسب ذیل ہے: یا اللہ! عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر رحم فرما، ان سے درگزر فرما اور ان کے اچھے اعمال کا انہیں صلہ عطا فرما۔ وہ تیری کتاب پر عمل کرتے رہے، تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرتے رہے، انہوں نے ہمیں متحد کیا اور ہمارے خون کو محفوظ بنایا اور انہیں مظلوم قتل کیا گیا۔ یا اللہ! ان کے انصار و معاونین، ان کے دوستوں اور ان سے محبت کرنے والوں اور ان کے خون کا مطالبہ کرنے والوں پر رحم فرما۔ اس دوران وہ ان کے قاتلوں کے لیے بددعا کیا کرتے تھے۔[1] جس طرح کہ خطبہ کی نص سے واضح ہے اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مذمت میں ایک لفظ بھی وارد نہیں ہے، الا یہ کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر لعنت کی یہ تاویل کی جائے کہ یہ ان کی مذمت سے عبارت ہے۔[2] جبکہ قریب و بعید کا ہر شخص اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کا عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے کوئی تعلق نہیں ہے، جس کا میں نے عثمان و علی اور حسن رضی اللہ عنہم پر مشتمل اپنی کتابوں میں اثبات کیا ہے۔ صورت حال جو بھی ہو حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے قتل کی تحقیق کرنے والا اس بات کو ملاحظہ کرے گا کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کا موقف دو مراحل سے گزرا: پہلا مرحلہ:… قومی معارضہ (۴۱-۵۰ھ): ابو عبدالرحمن، حجر بن عدی کندی شرف صحابیت سے مشرف ہیں، آپ اپنے بھائی ہانی بن ادبر کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت نہیں کی۔ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ اور عمار رضی اللہ عنہ سے سماعت کی۔[3] آپ شریف اور اپنی قوم کے مطاع امیر تھے۔ ان کا شمار شیعان علی رضی اللہ عنہ میں ہوتا ہے۔ امیر لشکر کی صورت میں جنگ صفین میں شامل ہوئے۔ آپ بڑے نیک اور عبادت گزار تھے۔[4] عدی بن حجر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی صلح کے مخالف تھے۔ یہ مخالف ضرور تھے، مگر یہ مخالفت صرف اقوال تک محدود رہی اور اس دوران عملاً کوئی کارروائی نظر نہیں آتی۔[5] اس بارے میں بلاذری رقمطراز ہیں:
Flag Counter