Maktaba Wahhabi

273 - 503
گزار رہے۔[1] (ب) معاویہ رضی اللہ عنہ اور مسورہ بن مخرمہ کا واقعہ:… معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کھلم کھلا کہا: مسور! ائمہ کے بارے میں تمہارے اعتراضات کا کیا بنا؟[2] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں سرکردہ لوگ ان کے بارے میں جو کچھ کہتے تھے وہ اس سے بخوبی آگاہ تھے۔ (ج) بازنطینیوں کے ہاں گرفتار مسلمان قیدی کا واقعہ:… جب شاہ روم کی موجودگی میں ایک مسلمان قیدی کے چہرے پر تھپڑ مارا گیا تو وہ چلا کر کہنے لگا: ہائے اسلام، معاویہ رضی اللہ عنہ تم کہاں ہو؟ پھر کچھ ہی عرصہ بعد یہ خبر معاویہ رضی اللہ عنہ تک پہنچ گئی۔[3] یہ بعض شواہد اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ دولت امویہ کے تابع اطلاعاتی مشینری بڑی متحرک اور مضبوط تھی۔ (د) کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعض پیروکاروں کو نگرانی میں رکھنا:… زیاد معاویہ رضی اللہ عنہ کی اطاعت میں آسانی سے داخل نہیں ہوا تھا۔ اس نے آغاز کار میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکمرانی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور بلاد فارس میں جا کر چھپ گیا۔ بعد میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے بڑی مشکل سے مطمئن کر کے اپنی اطاعت میں داخل کیا، زیاد نے ان سے کوفہ چلے جانے کی درخواست کی تو آپ نے اسے اس کی اجازت دے دی، اس کی کوفہ آمد پر مغیرہ رضی اللہ عنہ اس کی بڑی عزت کیا کرتے تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک خط کے ذریعے مغیرہ کو حکم دیا کہ زیاد، سلیمان بن صرد، حجر بن عدی، شبت بن ربعی، ابن کواء اور عمر بن حمق کو نماز باجماعت ادا کرنے کا پابند بنائیں، چنانچہ یہ لوگ ان کے ساتھ ہی نماز ادا کیا کرتے تھے، معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہ احتیاطی تدبیر تھی جس سے مقصود ان لوگوں کو مسلسل والی کوفہ کی نگرانی میں رکھنا تھا۔[4] اور اس کی وجہ یہ تھی کہ بعض لوگ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کی صلح کے خلاف تھے، لہٰذا ان کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعض حامی عناصر کے پاس اکٹھا ہو جانا بعید نہیں تھا، لہٰذا فتنہ کی سرکوبی کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔[5] ۱۰۔ اسلامی لشکر کا قیام:… معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے والی مقرر ہوئے تو انہوں نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے مضبوط اسلامی فوج کی تشکیل کا آغاز کر دیا جس نے اندرون ولایت امن و امان قائم رکھا اور بعدازاں اسلامی فتوحات میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔[6] جس کی تفصیل آگے چل کر آئے گی۔ اِنْ شَائَ اللّٰہُ۔
Flag Counter