Maktaba Wahhabi

299 - 503
پانچویں بحث: عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں مالی نظام اولاً:… ذرائع آمدن ۱۔زکوٰۃ: زکوٰۃ اسلام کے مالی نظام کا اہم ترین عنصر ہے، زکوٰۃ کی فرضیت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِo﴾ (البینۃ: ۵) ’’اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں اور نمازقائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی مضبوط ملت کا دین ہے۔‘‘ زکوٰۃ ارکان اسلام میں سے اہم رکن ہے اور اس کی فرضیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف قتال کرنے پر اتفاق کیا۔[1] لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرنے اور اسے خرچ کرنے کی ذمہ داری سلطان وقت کو تفویض کی گئی ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ جمع بھی فرمایا کرتے اور پھر اسے تقسیم بھی فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی یہ سلسلہ برقرار رکھا، پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں اموال کی کثرت ہو گئی تو انہوں نے اموال باطنہ سے متعلقہ امور کو امام کے وکلاء کے حوالے کر دیا جبکہ اموال ظاہرہ مثلاً کھیتیاں اور مویشی و غیرہا کی زکوٰۃ حکومت وصول کرتی اور وہی اسے خرچ بھی کیا کرتی تھی۔[2] حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے بارے میں وارد ہے کہ وہ خود زکوٰۃ وصول کیا کرتے تھے۔[3] پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اس بارے میں اختلاف رونما ہوا کہ مقامی ولاۃ کو زکوٰۃ دی جائے یا نہیں؟[4] یہ اختلاف اموال باطنہ کے بارے میں تھا جہاں تک اموال ظاہرہ کا تعلق ہے تو ان کی زکوٰۃ حکومت ہی وصول کیا کرتی تھی۔ چونکہ اموی دورِ حکومت میں بعض لوگ ولاۃ الامور کو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تھے، لہٰذا اس کے نتیجہ میں زکوٰۃ کی وصولی میں کمی واقع ہو گئی۔ یاد رہے کہ اس سے
Flag Counter