Maktaba Wahhabi

304 - 503
معاویہ رضی اللہ عنہ نے بعض صوبوں کے والیوں کو وہاں موجود ایسی وسیع و عریض زمینوں کی اصلاح کی ذمہ داری بھی تفویض کی جن کے لیے بکثرت پانی مہیا ہو سکتا تھا جس کے نتیجے میں لوگ خوشحال ہوئے اور ملکی آمدن میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا جس کا اندازہ پانچ لاکھ درہم لگایا گیا ہے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ ہمیشہ اس امر کے لیے کوشاں رہے کہ شہریوں کی اقتصادی حالت کو بہتر سے بہتر بنایا جائے، انہیں مطمئن رکھا جائے، خراج اور اس کی وصولی کے ذمہ داروں کے حوالے سے ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں اور انہیں پرامن زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔[1] مزید برآں وہ یہ ٹیکس ادا کرنے والوں کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کرنے کے لیے جن عمال کا انتخاب کرتے ان کی کڑی نگرانی کرتے اور ان کی طرف سے کسی زیادتی کو برداشت نہ کرتے، چاہے وہ ان کے قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں، انہوں نے اپنے بھانجے عبدالرحمن بن عبداللہ ثقفی کو اسی لیے اس عہدے سے معزول کر دیا کہ اس نے خراج کے بارے میں سختی برتی تھی۔[2] اموی دور حکومت میں بکثرت ایسے اشارے ملتے ہیں کہ وہ خراج میں غیر عرب لوگوں کی خدمات سے بھی فائدہ اٹھایا کرتے تھے، اور یہ اس لیے کہ وہ خراج کے امور سے بخوبی آگاہ تھے اور ان کا زمینوں کی آبادی میں اہم کردار رہا تھا۔[3] اس حوالے سے زیاد بن ابیہ کا کہنا تھا: خراج کے کاتبین غیر عرب اقوام کے سرکردہ لوگ ہونے چاہئیں جو کہ خراج کے امور سے بخوبی آگاہ ہیں۔[4] زیاد نے دیہاتی سرداروں کو مراعات دینے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے حوالے سے کہا تھا: دہکانوں[5] سے اچھا سلوک کیا کرو، اس لیے کہ اگر وہ خوشحال ہوں گے تو تم بھی خوشحال رہو گے۔[6] ۴۔عشور: اس سے مراد اندرون ملک یا بیرون ملک تجارت سے حاصل شدہ اموال ہیں، جن کی حیثیت عصر حاضر میں کسٹم محصولات جیسی ہوا کرتی تھی، انہیں ایک سرکاری ملازم وصول کیا کرتا تھا جسے ’’عاشر‘‘ یعنی عشور وصول کرنے والا کہا جاتا تھا۔[7] اسلام میں سب سے پہلے نظام عشور وضع کرنے والے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے اسے حربی پر عشر، ذمی پر نصف عشر اور مسلمان پر ربع عشر کی نسبت سے عائد کیا[8] اور نظام مندرجہ ذیل قواعد کے مطابق اموی عہد حکومت میں بھی جاری رہا: ا: راس المال کی کم از کم حد قابل معافی تھی، جو کہ مسلمان کے لیے دو سو درہم تھی،[9] جہاں تک اس حوالے سے
Flag Counter