Maktaba Wahhabi

314 - 503
۲۔چند لوگوں کے ہاتھوں میں مال و دولت کا ارتکاز: وہ اس طرح کے علاقہ میں رہائش پذیر زیادہ تر لوگ موالی تھے،[1] جس کی وجہ سے علاقہ میں سرمائے کی گردش کمزور پڑ گئی جس کی وجہ سے سامانِ تجارت کے تبادلہ کی تحریک بھی کمزور پڑ گئی اور یوں پورا علاقہ کساد بازاری کا شکار ہو گیا۔ ۳۔نیروز اور مہرجان کے ٹیکس کا اعادہ: اس کے بارے میں مروی ہے کہ اس کا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کے عہد حکومت سے آغاز ہوا تھا۔[2] اس کے اعادہ کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ اگرچہ اسلام نے اس قسم کی تقریبات سے منع کر رکھا تھا مگر لوگ اس کے عادی ہو چکے تھے۔[3] معاویہ رضی اللہ عنہ کا ارادہ تھا کہ اسے ان غیر مسلم دہکانوں سے وصول کیا جائے جو محاصل وصول کرنے کے ذمہ دار تھے تاکہ وہ مالی طور سے مضبوط ہو کر دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائیاں کرنے کی پوزیشن میں نہ آ جائیں۔ معاویہ رضی اللہ عنہ اسے امت اسلامیہ کی مصالح کے لیے خرچ کیا کرتے تھے، مگر ان کے بعد دہکانوں اور مقامی امراء پر متعدد نئے ٹیکس لگا دئیے گئے۔[4]جن کی وجہ سے مزارعوں پر بھاری بوجھ ڈال دیا گیا مزید براں ان کی وصولی کے لیے ان پر سختی بھی روا رکھی جاتی تھی۔[5] ۴۔زرعی منصوبہ جات کو سیاسی دباؤ میں رکھنا: حکومت کی طرف سے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جنگ و جدال کی وجہ سے اس کے زرعی منصوبہ جات تباہی سے دوچار ہو گئے جس کے حکومت کی اقتصادی حالت پر بڑے منفی نتائج مرتب ہوئے، مثلاً حجاج بن یوسف نے بعض لوگوں کے خلاف سیاسی بنیادوں پر کارروائی کرتے ہوئے ان کی زرعی زمینوں کو زیر آب آنے سے نہ بچایا جس کی وجہ سے وہ بنجر ہو گئیں۔[6] ۵۔ مہاجرین کا بوجھ: دولت امویہ کو آغاز کار میں عراق آنے والے مہاجرین کا بوجھ اٹھانا پڑا، یہ لوگ بے روزگار تھے یہ لوگ سرکاری دفترمیں عطیات کے لیے رجسٹرڈ بھی نہیں تھے اور نہ ہی ان کے پاس قابل کاشت زمینیں تھیں جن میں وہ کھیتی باڑی کر کے گزر بسر کر سکیں، بجائے اس کے کہ وہ کسی دوسرے میدان عمل میں کچھ کرتے انہوں نے آب پاشی کے نظام میں دخل اندازی کرتے ہوئے اس میں شگاف ڈال دئیے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کھیتیاں غرقاب ہو گئیں۔ زیاد عراق کی ولایت سنبھالنے کے بعد تخریب کاری کی اس جیسی کارروائیوں کو بمشکل ختم کر سکا۔[7]
Flag Counter