Maktaba Wahhabi

320 - 503
کرنے کا حکم دیا گیا۔[1] واسط شہر میں تیار کردہ کشتیوں کو واسطیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا، جہاں ایسی چھوٹی کشتیاں بھی تیار کی جاتی تھیں جو سیر و سیاحت اور واسط و بصرہ کے درمیان تجارتی سامان کی نقل و حرکت کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔[2] دولت امویہ میں مشرقی کشتیوں کی تیاری کے مراکز میں اگرچہ زیادہ تر تجارتی کشتیاں ہی تیار کی جاتی تھیں مگر وہ صرف اسی قسم کی کشتیوں کے ساتھ ہی خاص نہیں تھے بلکہ وہ تجارتی اور جنگی دونوں قسم کی کشتیوں کی تیاری کی صلاحیت رکھتے تھے۔ حجاج بن یوسف نے خلیج عربی اور بحرہند میں فوجی قوت کے قیام میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔[3] سادسًا:…عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں مالی اخراجات کے بارے میں شبہات بعض مؤرخین نے عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں مالی اخراجات کے بارے میں شبہات پیدا کیے ہیں، اور ان مصارف کا ذکر کرتے ہوئے انہیں ظالمانہ اور غیر شرعی قرار دیا ، وہ الزامات درج ذیل ہیں: ۱۔ بعض علاقوں کے خراج میں کمی و زیادتی اور شاہ خرچیاں: ا: عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو مصر رشوت کے طور پر دیا گیا: متعدد روایات میں وارد ہے کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو مصر رشوت کے طور پر دیا گیا تھا اور یہ اس لیے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی مدد کی تھی، یہ جملہ روایات و اخبار معاویہ رضی اللہ عنہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ دشمنی پر مبنی ہیں اور جن میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ گویا ایک گھٹیا اور مشکوک سودے بازی کی وجہ سے وہ دونوں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف متفق تھے جس میں وہ دنیوی مقاصد کے حصول کے لیے اپنے رب، دین اور تاریخ کے ساتھ خیانت اور زیادتی کے مرتکب ہوئے، گویا کہ اگر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو مصر کی گورنری نہ ملتی تو ان کے لیے اس قضیہ کے حل کے لیے اپنا تعارف پیش کرنا امرمحال تھا جس کے لیے ہزاروں لوگ بیک آواز تھے اور وہ قضیہ تھا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا مطالبہ۔ ان میں سے بعض روایات میں ان جلیل القدر اصحاب رسول کو سب و شتم بھی کیا گیا ہے اور جن سے لگتا ہے کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اخروی اجر و ثواب پر مصر کی گورنری کو ترجیح دی اور خود انہوں نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: یہی دنیا ہمارا اصل مقصود ہے۔[4]انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میں تمہیں اس وقت اپنا دین نہیں دوں گا جب تک تم سے تمہاری دنیا نہ لے لوں۔[5] اسی طرح ان کا یہ قول: میں تم سے مصر کے بدلے اپنا دین فروخت کر رہا ہوں۔[6]اسی طرح ان کا حضرت معاویہ سے یہ کہنا: اگر مصر اور اس کی ولایت نہ ہوتی، مجھے معلوم ہے کہ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں اور تم باطل پر۔[7] مزید اس طرح کی اور کئی روایات۔[8] اسی طرح مسعودی اور ابن قتیبہ کی طرف منسوب کتاب ’’الامامۃ و السیاسۃ‘‘ وغیرہ کی باطل اور موضوع روایات میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو لالچی
Flag Counter