Maktaba Wahhabi

326 - 503
بھی انہی لوگوں کے ساتھ کیا گیا اور ہشام کے زمانے میں افریقہ میں برابر خوارج کے انتفاضہ میں بھی یہی صورت حال دیکھنے میں آئی۔[1] ۲۔ لوگوں کے دل جیتنے اور اپنے حمایتی پیدا کرنے کے لیے مال خرچ کرنے میں وسعت: معاویہ رضی اللہ عنہ نے اشراف و زعماء کے دل جیتنے اور دولت اسلامیہ کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لیے بھاری رقوم خرچ کیں، ان کی رائے میں بہت سے مسلمانوں کا خون بہانے سے کچھ مال خرچ کرنا بہتر ہے۔ ان لوگوں کو مالی طور پر نوازنے کا مقصد ان کے اور ان کے اتباع و انصار کے دلوں کو جیتنا، ان کے مقام و مرتبہ کو بلند کرنا اور ان کے متعلقین کی ضروریات کو پورا کرنا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد مؤلفۃ القلوب کو دین کی طرف مائل کرنے اور ان کے دلوں سے نفرت و کدورت کو ختم کرنے کے لیے جو بھاری بھر کم عطیات دئیے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس سے یہ سمجھا کہ اس قسم کے لوگوں کے دل جیتنے کے لیے انہیں مال دینا جائز ہے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ اور بنو امیہ کے نزدیک دین اور دولت کے لیے دوستی دو الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ یہ ایک ہی چیز ہے اور یہ اس لیے کہ ان کے اعتقاد میں ان کی حکومت کا مقصد دین کی نصرت اور حاملین دین میں وحدت و یگانگت پیدا کرنا تھا۔[2] اور جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں اگر معاویہ رضی اللہ عنہ اس بارے میں غلطی پر تھے تو آپ ان عظیم القدر لوگوں کے بارے میں کیا کہیں گے جنہوں نے ان سے عطیات اور انعامات وصول کیے۔ جبکہ ان میں ان لوگوں کے نام بھی آتے ہیں جو تقویٰ و پرہیز گاری اور خشیت الٰہی میں بڑی شہرت رکھتے ہیں؟ ہمارا یہ کہنا مبنی برحقیقت ہے کہ اس دور کا اسلامی معاشرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفائے راشدین کے زمانے سے بہت مختلف تھا۔ یہاں تک کہ اس کی بعض سیاسی کار گزاریاں عطیات میں فرق ملحوظ رکھنے کا اپنا حق سمجھتی تھیں۔[3] ۳۔ امویوں کے شاہانہ طرزِ زندگی: امویوں کی خوشحالی اور ان کی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ ہمارے مورخین کا بڑا پسندیدہ موضوع رہی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ رہائش، لباس، عطیات اور اخراجات کے حوالوں سے ان پر شاہانہ انداز زیست کا رنگ نمایاں تھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے والی تھے اس دوران جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے تو وہ ایک بھاری بھر کم جلوس کے ساتھ صبح و شام ان کے ساتھ رہتے جس کا خلیفۃ المسلمین نے نوٹس لیا تو انہوں نے اس کا جواز بھی پیش کیا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمیں امویوں کی زندگی کو اس وقت کے عربی اور اسلامی معاشرے سے الگ کر کے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ان دونوں کا ایک دوسرے سے متاثر ہونا ضروری تھا اور ایسا ہوا بھی۔ اسی دور میں سماجی ترقی
Flag Counter