Maktaba Wahhabi

329 - 503
چھٹی بحث: عہد معاویہ رضی اللہ عنہ اور دولت امویہ کا عدالتی نظام عہد نبوی اور عہد خلافت راشدہ کے نظام قضاء کے بعد عہد اموی میں نظام قضاء تیسرے درجہ میں آتا ہے۔ اس لیے کہ اموی دور حکومت میں عہد خلافت راشدہ کے آثار بکثرت موجود تھے اور اس کے بہت سارے اعمال خلافت راشدہ کے دور کا تسلسل تھے۔ خاص طور پر فتوحات اسلامیہ، مشرق و مغرب میں دعوت اسلام کی اشاعت، اللہ کے دین میں لوگوں کی گروہ در گروہ شمولیت اور اسلامی تہذیب کی ترقی کے حوالوں سے۔[1] اولًا:… عہد اموی کا عہد راشدہ سے تعلق اموی دور حکومت اور خاص طور سے معاویہ رضی اللہ عنہ کا دورِ حکومت کئی حوالوں سے عہد خلافت راشدہ کا تسلسل تھا۔ اموی دور حکومت تک بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بقید حیات تھے، اور علم، فقہ اور قضاء وغیرہ میں کبارتابعین اور بعدازاں صغار تابعین ان کے شراکت دار تھے، اسی طرح عہد خلافت راشدہ کے بعض قضاۃ عہد اموی میں بھی شعبہ قضاء سے وابستہ تھے، ان میں قاضی شریح بن حارث کا نام خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ عہد اموی میں دینی تربیت، عقیدہ کی برتری، آثار ایمان، دین سے وابستگی اور شرعی احکام کی پاسداری باقی تھی، اس دور میں ایسے مجتہدین کی بڑی تعداد معرض وجود میں آئی جو صحابہ کرام اور فقہی مذاہب کے درمیان رابطے کا کام دیتے تھے۔ اموی دور حکومت کے علماء و مجتہدین عہد عباسی میں رونما ہوئے ائمہ مذاہب کے اساتذہ تھے۔ اس بڑی پررونق فقہی تصویر کے اموی دورِ حکومت کے عدالتی نظام پر بڑے گہرے اور قابل تعریف اثرات مرتب ہوئے اور اجتہادی سرگرمیوں میں بڑی وسعت پیدا ہوئی۔ مزیدبرآں علوم اسلامیہ کی تدوین، دوسری تہذیبوں سے استفادہ کرنے اور ہمسایہ اقوام کے علوم و ثقافات کے ترجمہ کی تحریک کا آغاز ہوا۔[2] ثانیًا:… خلفاء کا قضاء سے الگ ہونا خلفائے راشدین لوگوں کے تنازعات و اختلافات حل کرنے کے لیے خود فیصلے صادر فرمایا کرتے تھے اور اس بنا پر ان سے بہت سے فیصلوں کا صدور ہوا۔ مختلف شہروں کے امراء بھی خلیفہ وقت کے نائب ہونے کی حیثیت سے یہ فریضہ سرانجام دیا کرتے تھے، الا یہ کہ ان کے اختیارات کو محدود کر کے انہیں قضاء سے روک دیا جائے، اس صورت میں لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے ان کے ساتھ قاضیوں کا تقرر کر دیا جاتا، ان ولاۃ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام سرفہرست ہے جو عرصہ بیس سال تک شام کے والی رہے اس دوران وہ انتظامی اور عدالتی دونوں
Flag Counter