Maktaba Wahhabi

331 - 503
روایت کرتے ہیں کہ وہ ماہانہ پانچ سو درہم تنخواہ وصول کرتے تھے، وہ فرمایا کرتے تھے: میں لوگوں کے لیے پورا پورا وصول کروں گا اور انہیں پورا پورا دوں گا۔ مزید فرماتے تھے: میں ان کے لیے منصب قضاء پر بیٹھتا ہوں اور ان کے لیے اپنے آپ کو پابند کرتا ہوں، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مجھے روزی نہ ملے؟ جب ۷۲ھ میں عبدالملک بن مروان نخیلہ آیا تو اس نے قاضی شریح کے بارے میں معلوم کیا تو اسے بتایا گیا کہ وہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے عہد میں قضاء سے الگ ہو گئے تھے۔ اس نے انہیں اپنے پاس بلایا اور ان سے کہا: اللہ تمہیں توفیق عطا فرمائے، اپنے منصب پر واپس آجائیں۔ ہم نے آپ کے لیے دس ہزار درہم اور تین صد جریب کا حکم جاری کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ پیش کش قبول کر لی اور ۷۸ھ تک منصب قضاء پر فائز رہے۔[1] اس کے برعکس بعض قاضی حضرات قضاء کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے اور وہ اقامت شریعت کے لیے اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کے حصول کے خواستگار تھے۔ قاضی و مفتی مسروق بن اجدع (متوفی ۶۳ھ) کا شمار اسی قسم کے قاضیوں میں ہوتا ہے۔ آپ شریح سے بڑے مفتی جبکہ شریح ان سے بڑے قاضی تھے۔ مسروق کی بیوی کہتی ہیں: مسروق قضاء کی ذمہ داری ادا کرنے پر تنخواہ وصول نہیں کرتے تھے۔ قاسم فرماتے ہیں: مسروق کہا کرتے تھے: اگر میں ایک دن حق کے مطابق فیصلہ کروں تو یہ مجھے ایک سال فی سبیل اللہ دشمن کی سرحد پر موجود رہنے سے زیادہ پسند ہے۔[2] رابعًا:… احکام کو محفوظ کرنا اور ان پر گواہ بنانا عہد اموی میں پہلی بار قاضیوں کے صادر کردہ احکام کو رجسٹر اور دیوان محکمہ میں محفوظ کرنے کا رواج ہوا، تاکہ قاضی بوقت ضرورت ان کی طرف رجوع کر سکے اور سب سے پہلے یہ کام عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں مصر کے قاضی سلیم بن عنز تجیبی نے کیا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب میراث کی تقسیم کے سلسلے میں کچھ لوگ ان کے پاس جھگڑا لے کر آئے تو انہوں نے ان کے درمیان فیصلہ کر دیا۔ وہ ایک عرصہ تک غائب رہے پھر باہم اختلاف کیا اور ان کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، پھر وہ دوبارہ ان کے پاس آئے اور ان سے دوسری دفعہ فیصلہ کروانا چاہا۔ مگر قاضی کو ان کا واقعہ یاد آ گیا۔ جب انہوں نے ان کے سامنے ساری تفصیل بیان کی تو انہوں نے اس کا اعتراف کر لیا۔ اس پر قاضی سلیم بن عنز نے اپنے کاتب کو حکم دیا کہ وہ عدالتی احکامات کو تحریری طور سے محفوظ بنائے، آپ نے انہیں اپنا فیصلہ لکھ کر دیا اور اس پر گواہ بنائے۔[3] کندی فرماتے ہیں: سلیم بن عنز مصر میں پہلے قاضی تھے جنہوں نے اپنے فیصلے تحریری طور پر محفوظ کیے۔[4] ہم تک پہنچنے والی معلومات کی رو سے سلیم تجیبی پہلے قاضی تھے جنہوں نے عدالتی احکامات کی توثیق اور ان سے انکار کا راستہ بند کرنے کے لیے ان پر گواہ بنائے۔ بعد ازاں عباسی دور حکومت میں اس میں مزید وسعت آ گئی۔[5]
Flag Counter