Maktaba Wahhabi

338 - 503
۳۔ عہد اموی میں عدالتی فیصلوں کے کچھ نئے مصادر سامنے آئے اور وہ تھے: صحابی کا قول اور اہل مدینہ کا اجماع۔ جبکہ عہد نبوی کے اصلی مصادر قرآن و سنت اور عہد خلافت راشدہ کے اجتہادی مصادر جو کہ اجماع، قیاس، سابقہ عدالتی نظائر اور رائے سے عبارت ہیں، بھی معمول بہا تھے۔[1] ۴۔ اموی خلفاء شام میں قضاۃ کا خود تقرر کرتے اور بعض قاضیوں کے نام صوبوں کے لیے بھی تجویز کرتے۔ جبکہ شہروں میں قاضیوں کی تقرری اور معزولی کا اختیار ان شہروں کے والیوں کے پاس تھا۔ ۵۔ خلفاء اور ولاۃ منصب قضاء کے لیے علماء، فقہاء، شرفاء اور اچھی شہرت کے لوگوں میں سے ایسے لوگوں کا انتخاب کیا کرتے جو قاضی کی شرعی صفات سے متصف ہوتے، ان کے دلوں میں خوفِ الٰہی ہوتا، حق اور شریعت کا التزام کرنے والے اور لوگوں میں عدل قائم کرنے والے ہوتے۔ ۶۔ اموی دور حکومت میں شعبہ قضاء میں کچھ ایسی واضح تبدیلیاں بھی آئیں جنہیں پہلی بار نظام قضاء میں شامل کیا گیا اور وہ تھیں: الف: نسیان کے خوف اور انکار کے سدباب کے لیے عدالتی احکامات کو تحریری شکل میں محفوظ بنانا اور انہیں دیوان خاص میں سنبھال کر رکھنا۔ ب: اوقاف کی نگرانی کرنا تاکہ معاملات کو درست رکھا جا سکے۔ ج: یتیم بچوں کے اقوال پر نظر اور اوصیاء کی نگرانی کرنا۔ د: دعویٰ جات کو ترتیب دینا اور لوگوں کو عدالت میں ترتیب سے بلانا۔ ھ: قاضیوں کی معاونت کے لیے پولیس مین اور دربان کا تقرر کرنا۔ و: عدالتی احکامات کی تنفیذ کے لیے پولیس کی مدد حاصل کرنا۔ ۷۔ قاضی حضرات عدالتی احکامات صادر کرنے کے لیے بڑی محنت اور کاوش کرتے، انہیں کتاب و سنت، مقاصد شریعہ اور بقیہ مصادر سے استنباط کرنے کی مکمل آزادی حاصل تھی، وہ نہ تو خلفاء کی رائے کے پابند تھے اور نہ ہی کسی فقہی مذہب کے، مگر یہ چیز ان کے لیے علماء و فقہاء سے مشاورت اور ان کی عدالتی مجالس میں شرکت سے مانع نہیں تھی۔[2] ۸۔ قاضی حضرات حکام اور خلفاء کی سیاست سے متاثر نہیں ہوتے تھے۔ وہ اپنے فعل و عمل میں آزاد تھے اور ان پر سیاسی رجحانات، شورشیں، فکری اختلافات اور داخلی مسائل و فتن اثر انداز نہیں ہو سکتے تھے۔[3] الثاني عشر: … قضاء کے بارے میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خط حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام ایک خط لکھا، جس کا مضمون تھا: اما بعد، میں قضاء کے
Flag Counter