Maktaba Wahhabi

350 - 503
آٹھویں بحث: گورنرز اور انتظامیہ، عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے دوران مرکزیت اور لا مرکزیت کے درمیان توازن قائم رکھنے کے لیے کوشاں رہے۔ انہوں نے دمشق کو دار الحکومت قرار دیا جہاں سے حکومت کے سیاسی، اقتصادی اور انتظامی احکامات جاری کیے جاتے۔ جہاں تک ولایات کے داخلی امور کی ترتیب کا تعلق ہے تو اس کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ نے صوبائی گورنروں کو ان کے تجربات اور صلاحیتوں کے مطابق اپنے امور نمٹانے کی آزادی دے رکھی تھی مگر وہ سارے کے سارے معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے براہ راست جواب دہ تھے اور ان کے ہر عمل کے لیے ان کا احتساب بھی کیا جاتا تھا۔ دمشق کو دار الحکومت بنانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اہل شام کے بارے بخوبی آگاہ تھے اور انہیں ان پر اور ان کی دوستی پر مکمل اعتماد تھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے تقریباً بیس سال بلاد شام کے امیر کے طور پر گزارے اور اس دوران وہ ان کے درمیان عوامی مقبولیت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس امر کا احساس تھا کہ اموی حکومت کے تسلسل کا زیادہ تر دار و مدار ان کے لیے اہل شام کی نصرت و حمایت پر ہے، لہٰذا آغاز کار سے ہی ان کی یہ کوشش رہی کہ بلاد شام میں موجود مختلف عرب قبائل کے رجال کار اور خاص طور پر یمنی اور قیسی قبائل کے درمیان توازن قائم رہے۔[1] معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی استطاعت کی حد تک سرزمین شام میں طرفین کے مفادات کے تحفظ میں توازن قائم رکھنے کے لیے کوشاں رہے، معاویہ رضی اللہ عنہ کو قیسی قبائل کے مردان کار کی خدمات بھی حاصل تھیں، مثلاً ضحاک بن قیس فہری اور حبیب بن مسلمہ فہری اور یمنی قبائل کے سرکردہ لوگوں کی بھی، جن میں سے مالک بن ہبیرہ سکونی، شرحبیل بن سمط کندی اور حسان بن بحدل کلبی وغیرہم قابل ذکر ہیں۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنی امارت اور خلافت کے دونوں عرصوں کے دوران طرفین کی طرف سے مکمل تعاون حاصل رہا، وہ ایک ہی لشکر میں شامل ہو کر ایک ہی امارت کے تحت ان کے پہلو بہ پہلو اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف برسرپیکار رہتے۔[2] معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیاست اموی خاندان کے افراد سے استعانت پرقائم تھی، جیسا کہ عنبسہ بن ابوسفیان، عتبہ بن ابوسفیان، ولید بن عتبہ بن ابوسفیان، سعید بن العاص بن امیہ، مروان بن حکم اس کا بیٹا عبدالملک[3]اور عمرو بن سعید بن العاص وغیرہ۔[4] معاویہ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں میں سے بڑا وسیع تجربہ رکھنے والے لوگوں کو اپنے معاونین اور والی کے طور سے منتخب فرمایا، مثلاً عبداللہ بن عامر بن کریز، مغیرہ بن شعبہ، نعمان بن بشیر انصاری،
Flag Counter