Maktaba Wahhabi

37 - 503
میں نے جب ادھر ادھر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے یزید کے جھنڈے کے نیچے داد شجاعت دے رہے تھے۔[1] یہ بھی مروی ہے کہ جنگ یرموک کے موقع پر وہ گھوڑوں کے مجمع میں کھڑے لوگوں سے کہہ رہے تھے: ’’اللہ اللہ تم عرب کے محافظ اور اسلام کے مددگار ہو۔‘‘ جبکہ وہ روم کے محافظ اور شرک کے مددگار ہیں، یا اللہ! یہ دن بھی تیرے دنوں میں سے ایک دن ہے۔ یا اللہ! اپنے بندوں کی نصرت فرما۔ بااختلاف روایات ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے اکتیس، بتیس، تینتیس یا چونتیس ہجری میں وفات پائی،[2] اور ان کے بیٹے معاویہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ یہ بھی مروی ہے کہ ان کی نماز جنازہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پڑھائی تھی، اس وقت ان کی عمر اسی برس اور ایک دوسرے قول کی رو سے نوے برس سے کچھ زائد تھی۔[3] ۳۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہا: معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا اور وہ دونوں اپنے نکاح پر قائم رہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مردوں سے بیعت لینے کے بعد عورتوں سے بیعت لینے لگے تو ان عورتوں میں ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھی۔ اس نے اس خوف کے پیش نظر بھیس بدل رکھا تھا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہچان نہ لیں۔ اس نے غزوۂ احد کے موقع پر آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا تھا اس کا منظر اس کے سامنے تھا۔ آپ نے عورتوں سے یہ بیعت لی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، کسی پر بہتان نہیں لگائیں گی اور اچھے کاموں کی مخالفت نہیں کریں گی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’چوری نہیں کریں گی۔‘‘ تو ہند رضی اللہ عنہ کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول! ابوسفیان رضی اللہ عنہ بخیل آدمی ہے، وہ مجھے اتنا مال نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو، اگر میں اس کے علم میں لائے بغیر اس کے مال سے کچھ لے لوں تو اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو اس کے مال سے اس قدر لے سکتی ہے جو تجھے اور تیرے بچوں کو کفایت کر سکے۔‘‘ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ: ’’تم زنا نہیں کرو گی‘‘ تو ہند رضی اللہ عنہ کہنے لگی: کیا آزاد اور شریف عورت بھی ایسا کر سکتی ہے؟ جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہچان لیا تو دریافت فرمایا: ’’کیا تو ہند رضی اللہ عنہ بنت عتبہ ہے؟‘‘ تو اس نے اس کا اثبات میں جواب دیا۔ پھر گویا ہوئی: گزشتہ ایام میں جو کچھ ہوا اس سے درگزر فرمائیں۔ اللہ آپ سے درگزر فرمائے گا۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتے تھے، لہٰذا ان عورتوں نے مصافحہ کیے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ آپ صرف اس عورت کے ہاتھ کو مس کیا کرتے تھے جو آپ کی محرم ہوتی یا اللہ نے اسے آپ کے لیے حلال کیا ہوتا۔
Flag Counter