Maktaba Wahhabi

380 - 503
اس بارے یں ہمارے پاس جتنی بھی باطل اور لااصل اطلاعات پہنچی ہیں وہ نفسانی خواہشات کے پجاریوں کے واسطے سے پہنچی ہیں جو ان کی خواہشات کے داعی اور اپنے اپنے مذاہب کے لیے بڑے متعصب تھے، ان لوگوں نے حق کے خلاف بڑی جرات کا مظاہرہ کیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حرمت کو پامال کیا اور خیار صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں زبان درازی کرتے ہوئے کسی پر فسق و ضلال کی تہمت لگائی اور کسی پر کفر کا فتویٰ جڑ دیا۔ حتیٰ کہ ان کے کذب و افتراء سے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم و دیگر بھی نہ بچ سکے۔[1] محدثین نے ان کذابوں کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کی حقیقت کو آشکارا کیا اور ان کے مذموم عزائم کو واضح کیا، ان کذابوں کا کوئی بھی دعویٰ اس وقت تک ناقابل تسلیم رہے گا جب تک وہ اس کے اثبات کے لیے قابل قبول صحیح دلیل پیش نہیں کرتے۔ اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ پر لعن طعن کرنے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وضع حدیث پر آمادہ کریں۔[2] جبکہ صحابہ و تابعین میں سے علمائے امت معاویہ رضی اللہ عنہ کی عدالت کے شاہد ہیں۔ کسی بھی قابل وثوق مصدر میں کسی ایسی بات کا تذکرہ نہیں کیا گیا جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تکذیب کی ہو یا انہیں ایسی حدیث کے بیان کرنے سے منع کیا ہو۔ البتہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بعض دشمن ابوجعفر اسکافی سے مروی اس جھوٹی روایت سے استشہاد کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کذب بیانی کا مرتکب قرار دیا تھا۔[3] مگر یہ روایت مردود ہے اسے ہم اسکافی سے قبول نہیں کر سکتے اس لیے کہ وہ کٹر رافضی ، معتزلی اور محدثین کا دشمن ہے۔[4] ابو قتیبہ نے ان تمام روایات کی تردید کی ہے جو ان لوگوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کے حوالے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کی ہیں۔[5] (ج) کثرت حدیث: نظام معتزلی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر کثرت حدیث کے حوالے سے اعتراض کیا جبکہ اس کی پیروی کرتے ہوئے بعض دیگر معتزلہ نے بھی ان پر یہی اعتراض وارد کر دیا جن میں سے بشر مریسی اور ابو القاسم قابل ذکر ہیں۔ ابن قتیبہ نے اپنی کتاب (تاویل مختلف الحدیث) میں نظام کے اس موقف کی تردید کی، پھر یہی شبہ بعض متاخرین کے دلوں میں پیدا ہوا جیسا کہ رافضی مولف عبدالحسین شرف الدین، اس نے اپنی کتاب ’’ابوہریرۃ‘‘[6] کے بہت سارے صفحات ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے سیاہ کر ڈالے۔ پھر اسی رافضی کو ابو ریہ نے اپنی کتاب ’’اضواء علی السنۃ المحمدیۃ‘‘[7] میں بھڑکایا اور اس کے لیے ان دونوں نے
Flag Counter