Maktaba Wahhabi

384 - 503
میادین التغریب‘‘[1] اور ’’موقف المدرسۃ العقلیۃ من السنۃ النبویۃ‘‘۔ (د) مرض الموت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا رونا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا ان کے ورثاء کے لیے وصیت کرنا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ موت کے وقت رونے لگے تو ان سے کہا گیا: آپ رو کیوں رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں تمہاری اس دنیا کے لیے نہیں روتا، بلکہ میں اپنے اس سفر اور زادِ راہ کی کمی پر روتا ہوں۔ میں ایسی بلند جگہ پر کھڑا ہوں جہاں سے ایک راستہ جنت کو اور دوسرا جہنم کو جاتا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کس راستے پر چلایا جائے گا۔[2] ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ والی مدینہ ولید بن عتبہ بن ابوسفیان نے پڑھائی اور نماز جنازہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سمیت بہت سارے لوگوں نے شرکت کی۔ ان کی وفات وادی عقیق میں واقع ان کے گھر میں ہوئی، پھر انہیں مدینہ منورہ لا کر ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور بقیع میں مدفون ہوئے، ولید بن عتبہ نے ان کی وفات کی خبر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دی تو انہوں نے اسے ان کے ورثاء کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور انہیں دس ہزار درہم ادا کرنے کا حکم دیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے معاون و مددگار تھے اور پھر محاصرہ کیے گئے ان کے گھر میں ان کے ساتھ رہے۔[3] کیا معاویہ رضی اللہ عنہ نے منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ سے شام منتقل کرنے کا ارادہ کیا تھا؟ طبری نے اپنی تاریخ میں ۵۰ھ کے واقعات کے ضمن میں ذکر کیا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ سے شام منتقل کرنے کے لیے اسے اپنی جگہ سے حرکت دی تو سورج کو گرہن لگ گیا یہاں تک کہ ستارے نظر آنے لگے۔ جسے لوگوں نے بڑا گراں خیال کیا۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے منبر رسول کو یہاں سے اٹھانے کا ارادہ نہیں کیا تھا بلکہ مجھے یہ خوف لاحق ہوا تھا کہ کہیں اسے دیمک نہ لگ گئی ہو۔ اب میں نے اسے خود دیکھ لیا ہے۔ پھر انہوں نے اسے کپڑے سے ڈھانپ دیا۔[4] دوسری روایت میں وارد ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میرا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر اور لاٹھی کو مدینہ میں نہ چھوڑا جائے اس لیے کہ اہل مدینہ امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل اور ان کے دشمن ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عصا مبارک سعد القرظ کے پاس تھا جب انہوں نے ان سے عصا کا مطالبہ کیا تو ان کے پاس ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے: امیر المومنین! ہم تمہیں اللہ کا واسطہ دیتے ہیں کہ آپ یہ کام نہ کریں۔ ایسا کرنا صحیح نہیں ہو گا۔ آپ منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ سے نکالنا چاہتے ہیں جس جگہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عصا کو بھی مدینہ سے نکالنا چاہتے ہیں۔ اس پر انہوں نے یہ ارادہ ترک کر دیا، پھر انہوں نے منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چھ سیڑیاں اور بنا دیں اور لوگوں سے اس بارے معذرت کی۔[5]
Flag Counter