Maktaba Wahhabi

408 - 503
فوجیوں کے چیچک میں مبتلا ہونے کی وجہ سے شہر کا محاصرہ کرنے والے لشکر کے لیے حالات انتہائی مشکل بنا دئیے گئے جس کی وجہ سے بری فوج کے کمانڈر فضالہ بن عبید لیثی نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے مزید دستے بھجوانے کی درخواست کی تو اس کے جواب میں انہوں نے جو لشکر ادھر روانہ کیا اس میں کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے جن میں عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم قابل ذکر ہیں،[1] اس لشکر کا جنرل کمانڈر یزید بن معاویہ بن ابوسفیان تھا، جب یزید اپنے لشکر کے ہمراہ خلقیدونیہ پہنچا تو وہاں پہلے سے موجود ڈیرہ ڈالے لشکر کے ساتھ شامل ہو گیا اور پھر ان دونوں نے مل کر قسطنطنیہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور پھر اس کی دیواروں کے پیچھے مورچہ زن ہو کر اس کا محاصرہ کر لیا جو چھ ماہ تک جاری رہا، اس دوران فریقین میں گاہے بگاہے جھڑپیں ہوتی رہیں، اس محاصرے کے دوران یزید نے بڑی جوانمردی اور حوصلہ مندی کا مظاہر کیا اور شجاعت و سیاست کی ایسی نادر مثالیں قائم کیں جس کی وجہ سے بعض مورخین اسے ’’فتی العرب‘‘[2] (عرب نوجوان) کے لقب سے ملقب کرنے لگے، اس دوران اگر مسلم سپاہ کو شدید قسم کی موسمی مشکل حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا تو اس کی کامیابی یقینی تھی، مثلاً شدید سردی اور موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے غذائی اشیاء کی شدید قلت پیدا ہو گئی اور مجاہدین متعدد بیماریوں میں مبتلا ہو گئے، علاوہ ازیں انہیں شہر کی مضبوط حفاظتی دیواروں کا بھی سامنا تھا، ان مایوس کن حالات میں انہوں نے شہر کا محاصرہ ختم کر کے فی الحال واپس شام لوٹ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔[3] غزوہ قسطنطنیہ کا شمار دلائل نبوت میں ہوتا ہے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر دیتے ہوئے اور فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’میری امت کا پہلا لشکر جو شہر قیصر سے جنگ کرے گا اس کی مغفرت فرما دی گئی ہے۔‘‘[4] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مغفرت کی اس بشارت کی جستجو میں متعدد کبار صحابہ رضی اللہ عنہم اس غزوہ میں شریک ہوئے۔[5] رابعاً:…قسطنطنیہ کے محاصرہ کے دوران ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی وفات ابو ایوب خالد بن زید بن کلیب انصاری رضی اللہ عنہ جنگ بدر، عقبہ اور تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ آپ خوارج کے ساتھ جنگ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر رہے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر قیام فرمایا اور پھر ایک ماہ تک ان کے پاس ہی مقیم رہے، پھر جب آپ نے مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد اس کے آس پاس اپنی رہائش گاہ تعمیر کر لی تو اس میں منتقل ہو گئے۔[6]
Flag Counter