Maktaba Wahhabi

413 - 503
۵۔ دولت امویہ اور دولت اسلامیہ کی حکمت عملی، متعدد عوامل نے قسطنطنیہ کو سقوط سے محفوظ رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ مثلاً شہر کی طبیعی محفوظیت، افریقی آتش، موسمی شدت، بحر اسود سے اٹھنے والی شدید ترین سمندری لہریں، مسلمان سپاہ نے اگرچہ بڑے صبر و استقلال اور شجاعت و دلیری کا مظاہر کیا مگر وہ مندرجہ بالا عوامل کی وجہ سے شہر پر قبضہ کرنے میں ناکام رہیں، اور آخر کار دونوں حکومتیں شہر کا محاصرہ ختم کرنے کے لیے مذاکرات کرنے پر آمادہ ہو گئیں، یہ مذاکرات فریقین میں صلح کے معاہدہ پر منتج ہوئے اور اس کی رو سے اسلامی لشکر اور اسلامی بحری بیڑہ شام واپس لوٹ گیا۔ شہر کے محاصرہ کے دوران میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ یہ محاصرہ اپنا ہدف حاصل کیے بغیر طویل سے طویل تر ہوتا چلا جا رہا ہے، پھر جب ان کی عمر کافی زیادہ ہو گئی اور انہوں نے اپنی موت کو قریب آتے دیکھا تو انہوں نے بہتر سمجھا کہ شہر کے اردگرد خیمہ زن ان کے لشکر کو واپس لوٹ جانا چاہیے تاکہ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے یزید کو جن مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے وہ ان کے ساتھ آسانی سے نمٹ سکے۔ مسلم سپاہ کی طرف سے دارالحکومت کے طویل محاصرہ کی وجہ سے دولت بیزنطیہ کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، لہٰذا وہ بھی اس صورت حال کو ختم کرنے کی شدت سے خواہش مند تھی، چنانچہ اس نے بڑے ذہین و فطین اور معروف سفارت کار یوحنا کو دمشق بھیجا، اس بیزنطی سفیر نے اموی خاندان کے سرکردہ لوگوں کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کیں جن کے دوران اس نے دولت اسلامیہ کے لیے بڑے احترام کا اظہار کیا جس کی وجہ سے وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے اپنے لیے عزت و احترام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا جس سے طرفین میں صلح کے مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہو گئے۔ اس معاہدہ کے بعد دار الحکومت کے سامنے پڑاؤ ڈالنے والی قوات اسلامیہ نے شام واپسی کا راستہ اختیار کیا۔[1] سادسًا:… دونوں حکومتوں میں پرامن باہمی تعلقات اگرچہ خلافت راشدہ اور اموی دور حکومت میں مسلسل حرکت جہاد کی وجہ سے دولت اسلامیہ اور دولت بیزنطیہ کے درمیان تعلقات پر فوجی اور عسکری رنگ غالب رہا مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ فریقین میں پرامن تعلقات کا یکسر فقدان تھا۔ باہمی مذاکرات اور تبادلہ خیالات کی صورت میں دونوں حکومتوں میں پرامن تعلقات کی بھی عکاسی ہوتی ہے، ان تعلقات نے اموی دور حکومت میں مختلف شکلیں اختیار کر لی تھیں، مثلاً باہم خط و کتابت، تجربات کا تبادلہ، ثقافتی میدانوں میں بحث و مباحثہ قیدیوں اور سفیروں کا تبادلہ وغیرہ۔[2] ۱۔ مراسلت:… ایام فتنہ کے دوران معاویہ رضی اللہ عنہ نے قیصر روم کے ساتھ خط و کتابت کی جس کی وجہ سے وہ اس شرط پر صلح کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ قیصر روم کو کچھ مال ادا کریں گے اور طرفین
Flag Counter