Maktaba Wahhabi

420 - 503
دوسری بحث: عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں شمالی افریقہ کی فتوحات اولاً:… معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ کا حملہ معاویہ بن حدیج کندی رضی اللہ عنہ شرف صحابیت سے مشرف ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت کم روایات نقل کی ہیں۔ ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مروی ہے: ’’اگر کسی چیز میں شفا ہے تو وہ شہد پینے، سینگی لگوانے یا ڈم دینے میں ہے، مگر میں ڈم لگوانا پسند نہیں کرتا۔‘‘[1] ان کا شمار اشراف کندہ میں ہوتا ہے۔ آپ کی بادشاہت کو تسلیم کیا جاتا تھا[2] اور آپ بہترین امراء میں سے تھے۔ عبدالرحمن بن شماسہ کہتے ہیں: میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا: تم کن لوگوں میں سے ہو؟ میں نے کہا: اہل مصر سے۔ انہوں نے دریافت کیا: تم نے ابن حدیج کو کیسا پایا؟ میں نے جواب دیا: وہ بہت اچھے امیر ہیں، جس کے پاس گھوڑا نہ ہو اسے گھوڑا، جس کے پاس اونٹ نہ ہو اسے اونٹ اور جس کے پاس غلام نہ ہو اسے غلام دیتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: ’’یا اللہ میری امت میں سے جو کوئی کسی چیز کا امیر بنا اور اس نے ان کے ساتھ نرمی کی تو تو اس کے ساتھ نرمی فرما، اور جس نے ان پر مشقت ڈالی تو اس پر مشقت ڈال۔‘‘[3] جب معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت مستحکم ہو گئی تو انہوں نے شمالی افریقہ کے محاذ کو سب سے زیادہ اہمیت دی، اس لیے کہ اگر ایک طرف اس کی سرحدیں مغربی مصر سے ملتی تھیں تو دوسری طرف یہ علاقہ دولت بیزنطیہ کے اثر و نفوذ کے تابع تھا جو کہ مسلمانوں کی دشمن ریاست تھی اور جس کے معاویہ رضی اللہ عنہ نے ناک میں دم کرنے کا ہمیشہ عزم مصمم کیے رکھا۔ عین اس وقت جب انہوں نے مشرق کی طرف سے دولت بیزنطیہ پر مسلسل دباؤ جاری رکھا اور اس کے دارالحکومت قسطنطنیہ تک پہنچنے کے لیے بحر متوسط میں اس کے جزائر میں پیش قدمی جاری رکھی تو انہوں نے شمالی افریقہ کے ساحلوں کے جنوب کی طرف سے بھی اسے نیچا دکھانے کا فیصلہ کر لیا، چنانچہ انہوں نے ۴۱ھ میں معاویہ بن حدیج کو افریقہ روانہ کیا۔ پھر ۴۵ھ میں دس ہزار جنگجوؤں کا کمانڈر بنا کر انہیں دوبارہ ادھر بھیجا گیا یہاں تک کہ وہ افریقہ میں داخل ہو گئے۔ اس سفر کے دوران عبداللہ بن عمر بن الخطاب، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم ، عبدالملک بن مروان اور یحییٰ بن الحکم بن العاص اور دیگر اشراف قریش بھی ان کے ساتھ تھے، شاہ روم نے ان کے مقابلہ کے لیے نقفورا نامی بطریق کو تیس ہزار جنگجوؤں کے ساتھ بھیجا، وہ ساحل پر اترا تو معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف بھاری دستے کے ساتھ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو بھیجا، وہ یہاں سے روانہ ہو کر ایک بلند چوٹی پر فروکش ہوئے جہاں
Flag Counter