Maktaba Wahhabi

422 - 503
مسلمہ بن مخلد نے مصر اور برقہ کی ولایت بھی ان کے سپرد کر دی اس پر امارت کے دوران ہی ۵۶ھ میں ان کا وہیں انتقال ہوا۔ برقہ میں مدینۃ البیضاء کے مقام پر جبل اخضر میں ان کی قبر جانی پہچانی ہے۔ آپ اس علاقہ میں فوت ہونے والے آخری صحابی ہیں۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ احادیث روایت کی ہیں۔ آپ فقیہ صحابی تھے اور آپ کا شمار مفتی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے۔ آپ بڑے فصیح اللسان خطیب تھے۔[1] ثانیاً:…عقبہ بن نافع اور فتح افریقہ عقبہ بن نافع قرشی فہری افریقہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید کے افریقہ میں نائب تھے، انہوں نے ہی قیروان شہر آباد کیا اور اس میں لوگوں کو بسایا۔[2] آپ بڑے امانت دار، شجاع اور محتاط قسم کے مرد میدان تھے، ان کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہے، آپ فتح مصر میں شریک ہوئے اور اس کی منصوبہ بندی کی۔[3] معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما نے افریقہ میں اسلامی فتوحات کی تحریک کی قیادت اس عظیم کمانڈر کے سپرد کی جس کا نام تاریخ نے فتوحات کے میدان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ثبت کر دیا۔ عقبہ افریقہ کے غزوات میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ آغاز سے ہی شریک عمل رہے اور اس میدان میں وسیع تجربات حاصل کیے۔ جب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فسطاط واپس لوٹے تو انہیں برقہ پر اپنا جانشیں مقرر فرمایا اس دوران وہ لوگوں کو دعوت اسلام پیش کرتے رہے۔ عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ کو قیادت کی سپردگی سارے شمالی افریقہ کی فتح کے لیے اہم قدم ثابت ہوئی۔ چونکہ وہ عمرو بن العاص کے ایام میں برقہ، زویلہ اور اس کے اردگرد کے علاقوں کی فتح سے ہی ان شہروں میں مقیم رہے جس کی وجہ سے انہیں اس امر کا بخوبی ادراک ہو گیا تھا کہ اگر مسلمانوں کو افریقہ میں قدم جمانے ہیں اور وہاں کے لوگوں کو ارتداد سے باز رکھنا ہے تو اس کے لیے ایک مضبوط مرکز قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں سے وہ غزوات کے لیے روانہ ہوا کریں اور پھر واپس آ کر اپنے اہل و عیال میں پرامن طریقے سے رہ سکیں۔ جب معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما نے افریقہ میں اسلامی فتوحات کی قیادت ان کے سپرد کی تو ان کے پاس دس ہزار گھوڑ سواروں پر مشتمل فوجی دستہ بھیجا، نیز جب دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے بربر بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے تو ان کی جمعیت میں خاصا اضافہ ہو گیا۔[4] وہ اپنی جمعیت کے ساتھ روانہ ہوئے اور سرت[5] میں مغمداش کے مقام پر فروکش ہو گئے۔ یہاں آمد پر انہیں یہ خبر ملی کہ اہل ودان[6] نے بسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا ہوا اپنا معاہدہ توڑ دیا ہے اور جس جزیہ کی ادائیگی پر ان کے ساتھ اتفاق کیا تھا اس کی ادائیگی سے انکار کر دیا ہے، چنانچہ انہوں نے عمر بن علی قریشی اور زہیر بن قیش بلوی کی قیادت میں ایک لشکر
Flag Counter