Maktaba Wahhabi

433 - 503
برتاؤ کیا۔ اسے اپنے قریب کیا اور اس سے بادشاہوں جیسا سلوک کیا،[1] چونکہ آپ اس کے اسلام قبول کرنے کے خواہش مند تھے، لہٰذا اسے اسلام کے بارے میں بتاتے، اسے اس کی حقیقت سے آگاہ کرتے اور اسے بتاتے کہ اسلام توحید خالص، عدل و مساوات اور بھائی چارے کا دین ہے اور یہ کہ اگر وہ مسلمان ہو جائے تو اسے کچھ بھی خسارہ نہیں ہو گا بلکہ اسے مادی اور روحانی اعتبار سے بہت کچھ حاصل ہو گا۔ کسیلہ بڑا ذہین و فطین شخص تھا، وہ اپنی قوم کے لیے بڑا مخلص تھا اور وہ صرف اس کی اصلاح و بہتری کا ارادہ رکھتا تھا، لہٰذا وہ مسلمان ہو گیا، اسے عربی زبان میں دلچسپی پیدا ہوئی تو وہ اس کی تعلیم حاصل کرنے لگا اور اس طرح وہ ابو المھاجر کے مقربین میں شامل ہو گیا۔ کسیلہ نے اسلام اور اہل اسلام کی نصرت و معاونت کے لیے کمر کس لی اور پھر اپنی قوم کو دین حنیف کی دعوت دی جس سے ان کے سینے اسلام اور مسلمانوں کے لیے کھل گئے۔ ابو المھاجر مغرب اوسط کے امور اور بربر قبائل کے اسلام سے مطمئن ہو کر قیروان سے قریب اپنے اصل ٹھکانے کی طرف واپس لوٹ گئے اور دکرور نامی بستی میں مقیم ہو کر امور کی نگرانی کرنے لگے۔ وہ یہاں رہ کر رومیوں کی سرگرمیوں اور ان کی سازشوں پر بھی نگاہ رکھے ہوئے تھے، اس دوران ان کی یہ بھی کوشش رہی کہ شمالی افریقہ سے ان کے اثر و نفوذ کو ختم کر دیا جائے۔ مگر اسے بدنصیبی ہی کہا جائے گا کہ وہ یہاں زیادہ دیر تک قیام نہ کر سکے۔ اس لیے کہ ۶۲ھ میں ان کے مولیٰ اور والی مصر مسلمہ بن مخلد انصاری کی موت واقع ہو گئی، مسلمہ، ابو المہاجر کا مضبوط سہارا تھے جب یہ سہارا ختم ہو گیا تو یزید (بن معاویہ رضی اللہ عنہ ) نے عقبہ بن نافع کو افریقہ کا دوبارہ والی مقرر کر دیا اور ابو المھاجر کو ان کے منصب سے معزول کر دیا۔[2] ابو المھاجر کو افریقہ کا والی مقرر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمہ بن مخلد انصاری کو ان پر مکمل اعتماد تھا اور یہ کہ اسلام میں موالی کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے، مزید برآں ایمان میں سب لوگ برابر ہیں۔ وہ عرب مسلمان ہوں یا ان کا تعلق غیر عرب قومیتوں کے ساتھ ہو۔ ہم ان کے اس انتخاب سے یہ بھی استدلال کر سکتے ہیں کہ موالی اموی دورِ حکومت میں باعزت عہدوں پر فائز رہے اور یہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے جس کی تصویر کشی بعض اقوال میں کی گئی ہے۔ ایک قول کی رو سے ابو المھاجر مصر میں نوبہ کے موالی سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے آباء و اجداد بربر میں سے تھے۔[3] سادساً:…عقبہ بن نافع کا دوسرا حملہ (۶۲-۶۳ھ) عقبہ بن نافع افریقہ پہنچے تو اس کے عامل ابو المھاجر کے ساتھ سنگ دلانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے انہیں سخت بیڑیوں میں جکڑ دیا۔[4] مگر وہ اس کے باوجود مخلص، وفادار اور غیور ثابت ہوئے اور اگرچہ ان دونوں میں خاصی تلخی پیدا ہو گئی تھی مگر انہوں نے عقبہ کو نصیحت کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا، ان کی اہم ترین نصیحت عقبہ کو اس امر کا
Flag Counter