Maktaba Wahhabi

443 - 503
دنیوی زندگی بے وقعت ہو کر رہ جاتی اور ان کے دلوں میں آخرت کی محبت گھر کر جاتی ہے اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگوں کے لیے میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنا ممکن تھا مگر وہ بہادروں کی طرح ثابت قدم رہے یہاں تک کہ وہ سارے کے سارے ارض زاب میں تہوذہ قبیلہ کے علاقہ میں جام شہادت نوش کر گئے۔ مورخین ذکر کرتے ہیں کہ اس جگہ ان شہداء کی قبریں بڑی معروف ہیں اور یہ کہ مسلمان ان کی زیارت کیا کرتے ہیں۔[1] یوں ابو المھاجر کے بارے میں عقبہ کی امید پوری ہو گئی اور وہ دونوں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد شہادت فی سبیل اللہ سے مشرف ہو گئے۔ حضرت عقبہ نے اپنے اس جہاد کے ذریعے دنیا کے اس حصے میں اسلام کے لیے وہ راستہ کھول دیا جس پر ان کے بعد ان کے یہ خلفاء گامزن رہے: زہیر بن قیس بلوی، حسان بن نعمان غسانی اور موسیٰ بن نصیر۔ اس طرح وہ اشاعت اسلام اور جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ ہموار کرنے کے اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔[2] عقبہ بن نافع اور ان کے ساتھیوں کی شہادت ۶۳ھ میں ہوئی اور اس وقت ان کی عمر تقریباً ۶۴برس تھی۔ اس سے ہم اپنے اسلاف کی قوت ایمانی و جسمانی کا اندازہ کر سکتے ہیں، حضرت عقبہ نے طویل اور مشکل ترین سفر کے دوران بڑی بڑی جنگیں لڑیں جبکہ اس وقت ان کی عمر ساٹھ سال سے تجاوز کر چکی تھی۔ یوں یہ عظیم کمانڈر اس جہاد کے بعد جام شہادت نوش کر گئے جو چالیس سالوں سے زیادہ عرصہ تک جاری رہا جو انہوں نے شمالی افریقہ میں گزارا جس کا آغاز مصر سے ہوا اور اختتام مغرب اقصیٰ میں۔[3] ۳۔ معرکہ تہوذہ کے مسلمانوں پر اثرات (۶۳ھ): معرکہ تہوذہ مسلمانوں پر ایک مصیبت بن کر ٹوٹا جس میں مجاہد کمانڈر عقبہ بن نافع اور ان کے ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ ان کی شہادت مسلمانوں کے لیے بڑی دردناک تھی اور اس سے ان کے لیے بڑی اذیت ناک صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ اگرچہ عقبہ کے ساتھ شہید ہونے والوں کی تعداد بہت کم تھی جو کہ ایک روایت کی رو سے تین سو سے کم تھی اور لشکر کا زیادہ تر حصہ آگے بڑھ کر بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا اور اس کے لیے اپنے آپ کو سنبھال کر اور اپنی قوت کو مجتمع کر کے دشمن کا مقابلہ کرنا ممکن تھا مگر لشکر کی نفسیاتی حالت اس کی اجازت نہیں دے رہی تھی، قیروان پر عقبہ کے جانشین زہیر بن قیس نے لشکر میں مقابلہ کی روح پھونکنے اور کسیلہ کا تعاقب کرنے کی پوری کوشش کی اور ان سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: مسلمانو! تمہارے ساتھی جنت میں داخل ہو گئے اور اللہ نے انہیں شہادت سے نوازا۔ تم ان کے راستے پر چلو یا پھر اللہ تعالیٰ اس سے پہلے تمہیں فتح و نصرت سے نواز دے۔[4] مگر
Flag Counter