Maktaba Wahhabi

445 - 503
تیسری بحث: دولت امویہ کے مشرقی حصہ میں فتوحات معاویہ رضی اللہ عنہ مسلمانوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت تک عراق اور نہر جیحون کے درمیانی علاقہ کی فتح مکمل کر لی تھی جو کہ جرجان، طبرستان، خراسان، فارس، کرمان اور سجستان پر مشتمل ہے۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد فتوحات اسلامیہ کی تحریک کو شدید زد پہنچی، پھر جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت شروع ہوا تو دولت امویہ نے مفتوحہ علاقوں کو واپس لینے اور فتح اسلام کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے نئے سرے سے بھرپور کوششوں کا آغاز کر دیا۔[1] اولاً:… خراسان، سجستان اور ماوراء النہر کی فتوحات جب حالات معاویہ رضی اللہ عنہ کی گرفت میں آ گئے تو انہوں نے عبداللہ بن عامر کو بصرہ کا والی مقرر کیا اور سجستان اور خراسان سے جنگ کی۔[2] عبداللہ بن عامر کی اس منصب پر تقرری ان کے اس علاقہ میں گزشتہ تجربہ کی وجہ سے کی گئی تھی۔ ۴۲ھ میں ابن عامر نے عبدالرحمن بن سمرہ بن حبیب کو سجستان کا والی مقرر کیا، جب وہ یہاں آئے تو ان کے ساتھ عمر بن عبیداللہ بن معمر تیمی، عبداللہ بن حازم سلمی، قطری بن فجاء ہ اور مہلب بن ابو صفرہ ازدی بھی تھی۔ انہوں نے اس حملہ کے دوران زرنج[3] نامی شہر کو صلح کے ذریعے فتح کر لیا اور اس کے سردار سے دو ملین درہم کی ادائیگی پر موافقت کر لی، بعدازاں انہوں نے خواش[4] ، بست[5] اور خشک[6] وغیرہا شہروں کی طرف پیش قدمی کی اور انہیں فتح کر لیا، اسی طرح انہوں نے ایک ماہ کے محاصرہ کے بعد کابل کو بھی فتح کر لیا،[7] معاویہ رضی اللہ عنہ نے سجستان کو ولایت قرار دیتے ہوئے اس کا والی عبدالرحمن بن سمرہ کو مقرر کر دیا[8] جو کہ ان کی ان جیسی فتوحات کا صلہ تھا۔ اس طرح خراسان اور سجستان کی ولایت دوسری دفعہ والی بصرہ کی نگرانی میں آ گئی، جب ۴۵ھ میں زیاد بصرہ آیا تو اس نے خراسان کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا: ۱۔ مرو:… اس کے امیر و امیر احمد لشکری تھے اور یہ پہلے شخص تھے جنہوں نے عربوں کو مرو میں لا کر آباد کیا۔[9] ۲۔ نیسا پور: اس کے امیر خلید بن عبداللہ حنفی تھے۔
Flag Counter