Maktaba Wahhabi

45 - 503
طرح یاد کر لو۔ خیانت نہ کرنا، غلول نہ کرنا، فساد نہ مچانا، لاشوں کا مثلہ نہ کرنا، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا، پھل داردرخت نہ کاٹنا، بکریوں اور اونٹوں کو ذبح نہ کرنا، الا یہ کہ انہیں کھانا مقصود ہو، گرجا گھروں میں بند لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا، اللہ کے کام پر روانہ ہو جاؤ۔[1] یزید بن ابو سفیان نے اس وصیت سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں شام فتح ہوا تو انہوں نے یزید کو فلسطین اور اس کے گرد و نواح کا والی مقرر کیا۔ ان کی موت ۱۸ھ میں طاعون عمواس کے دوران واقع ہوئی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ۱۹ھ میں فتح قیساریہ کے بعد فوت ہوئے۔ یہ بھی مروی ہے کہ وہ فتح قیساریہ سے قبل ہی رحلت فرما گئے تھے اور اسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے فتح کیا تھا۔[2] ابو اسماعیل محمد بن عبداللہ بصری فرماتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یزید بن ابوسفیان کی موت پر بڑا صدمہ ہوا اور انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو شام کی ولایت سنبھالنے کے لیے خط لکھا۔[3] ۲۔ عتبہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما ابو الولید عتبہ بن ابوسفیان کی پیدائش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں طائف کا والی مقرر فرمایا تھا۔ عمرو بن العاص کی وفات پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں مصر کا والی مقرر کیا۔ بیان کیا جاتا تھا کہ مکہ کی امارت کے ایام میں ایک بادیہ نشین خلیفہ کہہ کر ان سے مخاطب ہوا تو انہوں نے کہا: میں تو اس کا اہل نہیں ہوں۔ پھر وہ ان سے بھائی کہہ کر مخاطب ہوا، تو انہوں نے کہا: تو نے اپنی بات سنا لی، کچھ اور کہنا چاہے گا؟ اس نے کہا: بنو عامر کا شیخ تمہارا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کے تمہارے ساتھ چچاؤں اور خالووں والے مراسم ہیں۔ وہ تمہارے سامنے کثرت عیال، قلت مال، زمانے کی سختی، فقر و فاقہ کی شدت اور نقصانات کی شکایت کرتا ہے، اس لیے کہ تمہارے پاس وہ کچھ موجود ہے جو اس کی ضروریات پوری کر سکتا ہے اور اس کی مشکلات کا ازالہ کر سکتا ہے۔[4] عتبہ نے جواب دیا: ہم نے تجھے بے نیاز کرنے کا حکم دے دیا ہے کاش! ہم اپنی اس تاخیر کا ازالہ کر سکیں۔[5] عتبہ بڑے قادر الکلام اور فصیح البیان خطیب تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بنو امیہ میں ان سے بڑھ کر کوئی خطیب نہیں ہوا۔[6] عتبہ ایک سال تک مصر کے والی رہے، پھر مصر میں ہی ان کا انتقال ہوا اور وہیں مدفون ہوئے۔ یہ ۴۳ھ یا ۴۴ھ کی بات ہے۔ ۳۔ عنبسہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما ان کی کنیت ابو عثمان تھی۔ ابو امامہ سے مروی ہے کہ جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو وہ گھبرا گئے اور انہیں شدید قسم کی پریشانی لاحق ہو گئی۔ جب لوگ ان کی بیمار پرسی کے لیے آئے تو وہ رونے لگ گئے۔ انہوں نے پوچھا:
Flag Counter