Maktaba Wahhabi

471 - 503
کے لیے حاضر کرنے سے متعلق تھے۔ یہ عرفاء طاقت اور اثر و نفوذ کے حوالے سے قبائل کے روساء کے قائم مقام تھے۔ ان عرفاء کا اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں میں شمار ہوتا تاکہ وہ عسکری ادارے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکیں۔[1] اس کی مثال کے طور ہم زیاد کا وہ واقعہ پیش کر سکتے ہیں کہ جب وہ اہل بصرہ میں خطبہ دینے کے لیے کھڑا ہوا تو انہیں یہ دھمکی دی کہ اگر انہوں نے اس سے خوارج کو نہ روکا تو ان کے عطیات روک لیے جائیں گے جس پر لوگوں نے انہیں قتل کر ڈالا۔[2] کمانڈرز اور سرکاری احکامات کا نفاذ کرنے والے عام فوجیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ان کے عطیات میں اضافہ کر دیا جاتا۔ جیسا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اہل شام کے اشراف کے ساتھ کیا تھا۔[3] الثاني عشر:… عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں اسلامی فتوحات پر علمی اور اجتماعی اقتصادی اثرات معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں قصہ گو حضرات کا کردار بڑا نمایاں رہا۔ یہ لوگ لشکریوں میں قراء کی طرح پھیل جاتے، انہیں اپنے اسلاف کے کارناموں سے آگاہ کرتے اور جو ش دلانے والے اشعار سناتے جس سے ان کے جذبات برانگیختہ ہوتے اور وہ جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے، یہ فریضہ خطباء اور واعظین بھی ادا کرتے، سپاہ اسلامی میں فداکاری اور جانثاری کے جذبات کو ابھارنے کے لیے قراء اور شعراء کا کردار بھی بڑا اہم تھا۔[4] امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ امراء، قائدین اور فوجیوں کو اپنی وصیتوں اور ہدایات میں خلفائے راشدین کے نقش قدم پر چلایا کرتے۔ جب انہوں نے عبیداللہ بن زیاد کو خراسان کے محاذ پر متعین کیا تو اسے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: اللہ سے ڈرتے رہنا اور اللہ کے تقویٰ پر کسی چیز کو ترجیح نہ دینا۔[5] عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں اسلامی تہذیب پر علمی اثرات کے ضمن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ جب انہوں نے جزیرہ رودس کو فتح کیا تو اس کی فتح میں نامور مقری مجاہد بن حیر بھی شریک تھے پھر وہ وہیں مقیم رہ کر فتح کے دوران تعمیر کردہ مسجد میں لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینے لگے اور انہیں دین اسلام کی تعلیمات سے نوازنے لگے، یہ ان ہزاروں مثالوں میں سے ایک ہے مگر یہ علمی اثرات صرف جزیرہ رودس کے ساتھ ہی مخصوص نہیں تھے، اس قسم کی متعدد مثالیں تمام شہروں اور اسلامی قبائل میں بکھری پڑی ہیں۔[6] فتوحات اسلامیہ پر اقتصادی اور اجتماعی اثرات کے ضمن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں والی مصر مسلمہ بن مخلد انصاری اور دیگر اموی ولاۃ جب ان کے پاس خراج کے اموال بھیجتے تو اس سے مصر کی زمینوں کو آباد کرتے، ان کی اصلاح کرتے، آبی گزر گاہوں پر پل وغیرہ تعمیر کرنے اور انہیں نقصانات سے بچانے کے لیے اٹھنے والے اخراجات کی رقوم وضع کر لیتے، انہوں نے حرمین شریفین کے رہائشیوں کے تعاون کے لیے ان پر تقسیم کرنے کی غرض سے یہاں گندم بھیجی۔[7] جزیرہ میں روضہ کے مقام پر وہاں کشتی سازی کا کارخانہ قائم کرنے
Flag Counter