Maktaba Wahhabi

490 - 503
ج: یزید کی ولی عہدی کے لیے نامزدگی حجاز پر[1] مروان بن حکم کی حکومت کے دوران ہوئی اور وہ بلاشک اس کی حکومت کا دوسرا عرصہ ہے جو کہ ۵۴ ہجری سے ۵۷ ہجری کے درمیان ہے اور یہ اس لیے کہ مروان کی ولایت کا پہلا عرصہ ۴۲-۴۹ ہجری کو محیط ہے۔ اب یزید کی ولی عہدی کی نامزدگی کے اعلان کے لیے دو ہی تاریخیں باقی رہ جاتی ہیں اور وہ ہیں ۵۵ ہجری اور ۵۶ ہجری۔ یہ دونوں تاریخیں ایک دوسری کی تکمیل کرتی ہیں۔ جیسا کہ آگے چل کر اس کی وضاحت کی جائے گی۔ مگر اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی وجہ ہے جس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنے بیٹے یزید کی ولی عہد کے طور پر نامزدگی کے اعلان کو ۵۵ ہجری یا ۵۶ ہجری تک موخر کرنے کے لیے مجبور کیا، جبکہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما ۵۱ ہجری میں وفات پا گئے تھے۔ اس سوال کا جواب ۵۵ ہجری میں وقوع پذیر ہونے والے ایک اہم واقعہ کی معرفت میں پنہاں ہے اور وہ یہ کہ اس سال ان چھ حضرات میں سے آخری شخص سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے جنہیں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد خلافت کے لیے نام زَد کیا تھا۔ رابعًا:… عبدالرحمن بن خالد بن ولید کی وفات بعض مورخین نے عبدالرحمن بن خالد بن ولید اور یزید بن معاویہ کی بیعت میں تعلق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب امیر نے دیکھا کہ اہل شام عبدالرحمن بن خالد بن ولید کو روم میں ان کی حربی خدمات کی وجہ سے قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے خوف زَدہ ہو گئے، چنانچہ انہوں نے اپنے نصرانی طبیب ابن اثال کو انہیں زہر دینے کا حکم دیا، جس سے ان کی موت واقع ہو گئی۔[2] جبکہ ابن الکلبی ان کی موت کا ایک دوسرا سبب بتاتے ہیں اور وہ یہ کہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد کسی آدمی کو امور سلطنت تفویض کرنے کا اِرادہ کیا تو انہوں نے اس بارے لوگوں سے رائے لی تو انہوں نے عبدالرحمن بن خالد کا نام تجویز کیا۔ یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے اور اس بات کو اپنے دل میں رکھ لیا۔ پھر عبدالرحمن بیمار ہوئے تو انہوں نے اپنے طبیب ابن اثال کو بلایا اور اسے عبدالرحمن کو زہر دینے کا حکم دیا۔[3] مگر یہ روایات ایسی ہیں کہ ضعیف الاسناد ہونے کے ساتھ ساتھ امر واقع کے ساتھ ان کے متن کا بھی اختلاف ہے، اور وہ اس طرح کہ جیسا کہ معروف ہے امراء کو معزول کرنے یا کسی کو منصب ولایت پر فائز کرنے کا اختیار ان کے پاس تھا۔ دریں حالات ان کے لیے عبدالرحمن بن خالد کو رومی سرحد پر متعین موسم گرما کے لشکر کی قیادت سے الگ کرنا کوئی امر دشوار نہیں تھا اور نہ یہ کچھ مشکل ہی تھا کہ وہ انہیں کسی قسم کی کوئی اہمیت نہ دیتے اور اس طرح وہ کسی ایسے مقام و مرتبہ کے حامل نہ رہتے جس سے کوئی خوف محسوس کیا جا سکتا۔ جبکہ یہ بھی وارد ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں معزول کر کے ان کی جگہ
Flag Counter