Maktaba Wahhabi

498 - 503
غلط راہ اختیار کروں تو مجھے سیدھے راستے پر ڈال دو۔ راست گوئی امانت ہے اور دروغ گوئی خیانت، تم میں سے جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک طاقتور ہے جب تک اسے اس کا حق نہ دلوا دوں، اور تم میں جو طاقتور ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے جب تک میں اس سے حق وصول نہ کر لوں۔ جو لوگ جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کر دیتے ہیں اللہ انہیں ذلیل کر دیتا ہے اور جس قوم میں فحاشی عام ہو جائے اللہ اسے آفات میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو اور جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت فرض نہیں، اب نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ اللہ تم پر رحم فرمائے۔[1] اس دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے منبر پر تشریف فرما ہونے کی درخواست کی اور وہ اس کے لیے اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ وہ منبر پر تشریف فرما ہو گئے اور پھر لوگوں نے ان سے بیعت عامہ کی۔[2] حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس خطبہ کا شمار مختصر ہونے کے باوجود بہترین اسلامی خطبات میں ہوتا ہے جس میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حاکم و محکوم کے مابین تعامل میں عدل و رحمت کے قواعد و ضوابط متعین فرمائے ہیں اور اس بات پر زور دے کر کہا کہ حکمرانوں کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔ اس دوران آپ نے جہاد فی سبیل اللہ پر زور دیا اس لیے کہ امت کو عزت و توقیر عطا کرنے میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ آپ نے بے حیائی اور فحاشی سے اجتناب کی تلقین کی، اس لیے کہ معاشرے کو تباہی اور فساد سے بچانے کے لیے یہ چیز بڑی اہمیت کی حامل ہے۔[3] ۲۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیعت کے انعقاد کا طریقہ: جب خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا: تم لوگ میری بیماری کی شدت دیکھ ہی رہے ہو، میں سمجھتا ہوں کہ اس بیماری کی وجہ سے میری موت یقینی ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہارے ایمان کو میری بیعت سے آزاد کر دیا ہے، میری گرہ کو کھول دیا اور تمہارا معاملہ تمہیں واپس کر دیا ہے۔ اب تم جسے چاہو اپنا امیر بنا لو، ویسے اگر تم میری زندگی میں ہی کسی کو اپنا امیر بنا لو تو اس طرح تم میرے بعد اختلاف کرنے سے بچ جاؤ گے۔[4] سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اگلے خلیفہ کے انتخاب کی کارروائی مکمل کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے۔ مثلاً: الف: کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشاورت:… آپ رضی اللہ عنہ نے اس بارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو وہ کہنے لگے: خلیفہ رسول! جو آپ کی رائے ہو گی وہی رائے ہماری ہو گی، اس پر آپ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے فرمایا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے
Flag Counter