Maktaba Wahhabi

50 - 503
فما أبغي سوی وطني بدیلاً فحسبي ذاک من وطن شریف جب معاویہ اس کے پاس آئے تو ان کی ایک لونڈی نے انہیں اس سے آگاہ کیا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے اسے یہ اشعار پڑھتے ہوئے خود سنا تو فرمانے لگے: بحدل کی بیٹی نے تو مجھے چارہ کھانے والا جنگلی گورخر بنا دیا ہے۔ اسے میری طرف سے طلاق ہے۔ اسے بتاؤ کہ محل میں جو کچھ بھی ہے وہ سب کا سب اسی کی ملکیت ہے۔ پھر آپ نے اسے گاؤں میں اس کے گھر والوں کے پاس بھیج دیا۔ وہ اپنے بیٹے یزید کو بھی اپنے ساتھ لے گئی۔ چونکہ وہ بادیہ میں پروان چڑھا تھا لہٰذا وہ بڑا فصیح اللسان تھا۔[1] بغدادی رحمہ اللہ نے خزانۃ الادب میں ذکر کیا ہے کہ’’ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے طلاق دی تو کہنے لگے: تو ہمارا ساتھ چھوڑ کر جا رہی ہے۔ اس نے جواب دیا: جب ہم ایک ساتھ تھے تو خوش نہیں تھے اور اب جب ہم جدا ہو رہے ہیں تو اس جدائی کا کوئی غم نہیں ہے۔‘‘[2] ۲۔ فاختہ بنت قرظہ ان کی دوسری بیوی کا نام فاختہ بنت قرظہ بن عبد عمرو بن نوفل بن مناف ہے۔ اس نے ان کے لیے عبدالرحمن اور عبداللہ کو جنم دیا۔ عبداللہ ذہنی اور جسمانی اعتبار سے کمزور تھا اور اس کی کنیت ابو الخیر تھی۔ جبکہ عبدالرحمن کا بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔[3] ۳۔ کنود بنت قرظہ ان کی بیویوں میں کنود بنت قرظہ کا نام بھی آتا ہے۔ یہ فاختہ بنت قرظہ کی بہن تھی جس سے انہوں نے اسے طلاق دینے کے بعد شادی کی تھی۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے قبرص فتح کیا اس وقت یہ خاتون ان کے ساتھ تھی۔[4] ۴۔ نائلہ بنت عمارۃ کلبیہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے نائلہ بنت عمارۃ کلبیہ کے ساتھ بھی شادی کی مگر اسے جلد ہی طلاق دے دی تھی۔[5] معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیٹیاں: ۱۔ رملہ، اس سے عمرو بن عثمان بن عثمان رضی اللہ عنہ نے شادی کی۔[6] ۲۔ ہند، اس سے عبداللہ بن عامر نے شادی کی۔[7] ۳ ،۴ ،۵۔ عائشہ، عاتکہ اور صفیہ۔[8]
Flag Counter