Maktaba Wahhabi

501 - 503
کریں گے قیامت کے دن ان کے ترازو بھاری ہوں گے اور جو دنیا کی زندگی میں باطل کی اتباع کرتے رہے قیامت کے دن ان کے اعمال کے ترازو ہلکے ہوں گے اور وہ ناکام و نامراد ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اہل جنت کا ذکر کیا تو اس کے ساتھ ان کے نیک اعمال کا بھی ذکر کیا اور جب اہل جہنم کا ذکر کیا تو اس کے ساتھ ان کے برے اعمال کا بھی ذکر کیا، اس طرح ترغیب و ترہیب کی آیات ساتھ ساتھ نازل ہوئیں تاکہ بندہ مومن اللہ سے ڈرتا رہے اور اس سے مغفرت طلب کرتا رہے۔ وہ نہ تو اللہ کی رحمت سے مایوس ہو اور نہ اس سے ناجائز امیدیں ہی وابستہ کرے۔ عمر! جب تم میری وصیت پر عمل کرو گے تو پھر کوئی بھی غیر موجود تجھے موت سے زیادہ قابل نفرت نہیں لگے گا مگر تم موت کو بے بس نہیں کر سکو گے۔[1] ہم دیکھ رہے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ اصحاب حل و عقد کے اتفاق اور ان کے اِرادہ سے منتخب ہوئے تھے، انہوں نے خلیفہ کے انتخاب کا معاملہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا اور اس بارے انہیں اپنا نائب مقرر کر دیا، انہوں نے مشاورت کے بعد خلیفہ کی تعیین کی پھر اسے لوگوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اس کی توثیق کر دی، امت اسلامیہ میں اصحاب حل و عقد امت کے نمائندگان ہوتے ہیں۔ اس بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا فیصلہ شورائیت کے بہترین انداز اور انتہائی عادلانہ اسلوب میں ہوا۔[2] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد خلیفہ کے انتخاب کے لیے جو اقدامات لیے اگرچہ وہ ان کے اپنے انتخاب کی کاروائیوں سے مختلف تھے مگر وہ کسی بھی حالت میں شورائیت سے تجاوز نہیں کرتے۔[3] اور یوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت کا انعقاد شوریٰ اور اتفاق کی بنیاد پر ہوا، تاریخ نے ان کی خلافت کے بارے میں کسی بھی قسم کے اختلاف کو وارد نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے ان کی خلافت کے عرصہ کے دوران اس بارے کوئی تنازع کیا۔ ان کی حکومت کے دوران ان کی خلافت و اطاعت پر امت کا اجماع رہا اور تمام مسلمان ایک وحدت کی صورت میں نظر آتے رہے۔[4] ۳۔ بیعت عثمان رضی اللہ عنہ کا طریقہ انعقاد: فاروق اعظم نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جبکہ وہ بستر مرگ پر اپنے جسم پر آنے والے گہرے زخموں کی تکلیف سے کراہ رہے تھے نئے خلیفہ کے انتخاب کے لیے ایک ایسا نیا طریقہ وضع کیا جس کی قبل ازیں کوئی مثال نہیں ملتی، قبل ازیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی بھی شخص کو نص صریح کے ساتھ خلیفہ نہیں بنایا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مشاورت کے بعد فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر فرمایا، پھر جب آپ سے کسی کو خلیفہ بنانے کا مطالبہ کیا گیا تو آپ نے کچھ دیر غور و فکر کرنے کے بعد ایک دوسرا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس حال میں چھوڑا کہ وہ سب کے سب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی افضیلت
Flag Counter