Maktaba Wahhabi

506 - 503
بھی جنگ کرو گے۔[1] ابن سعد کی روایت میں ہے: حسن بن علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہما نے اپنے باپ کے بعد اہل عراق سے اِمارت پر بیعت کی اور یہ کہ وہ اس چیز میں داخل ہوں گے جس میں حسن رضی اللہ عنہ داخل ہوں گے اور جس سے وہ راضی ہوں گے اس سے اہل عراق بھی راضی ہوں گے۔[2] ۶۔ بیعت معاویہ رضی اللہ عنہ کے انعقاد کا طریقہ: حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے منصب خلافت سے دست برداری کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت مکمل ہوئی اور انہیں اس کے تمام اسباب میسر آ گئے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر امیر المومنین کے طور پر ۴۱ ہجری میں بیعت ہوئی اور اس سال کو ’’عام الجماعۃ‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔[3] اس وقت تک بقید حیات تمام صحابہ کرام نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کی اور اس طرح ان کی امارت پر امت کا اجماع ہو گیا، لوگوں نے ان کی امامت کو شرعی قرار دیا اور ان کی امامت کو پسند کیا۔ افراد امت نے سمجھا کہ وہ مسلمانوں کی قیادت کے لیے انتہائی موزوں اور یہ ذمہ داری نبھانے کے لیے انتہائی مناسب ہیں۔ ۷۔ عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں ولایت عہد کے تصور پر اعتراضات: نظام اسلام حکمران کے انتخاب کے لیے کسی معین طریقہ کار کی صراحت نہیں کرتا البتہ اس نے اس کے لیے ایک ایسی اساس ضرور وضع کر دی ہے جس سے بجز اضطراری حالت کے انحراف کرنا جائز نہیں ہے اور وہ ہے: شوریٰ۔ مگر شوریٰ کے لیے بھی کوئی ایسا خاص اسلوب اور ایک ہی طریقہ کار نہیں ہے جس کے بغیر وہ متحقق نہ ہو سکتی ہو، اس کے الگ الگ طریقہ ہائے کار ہیں جیسا کہ ہم نے خلفائے راشدین کے انتخاب میں مشاہدہ کیا۔ اگر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مسلمان قوم کے اتحاد و اتفاق اور اسے خون ریزی سے بچانے کے لیے اسلامی نظام حکومت میں ولایت عہد کا طریقہ ایجاد کیا تھا تو وہ اس کے لیے ان شاء اللہ ماجور من اللہ ہیں۔ البتہ وہ اس بات پر قادر تھے کہ وہ ایسا اپنے بیٹے کے علاوہ اس وقت موجود کبار صحابہ میں سے کسی کے لیے کرتے اگر انہیں یہ ذمہ داری تفویض کی جاتی تو یقینا وہ اس کا حق ادا کرتے، اس وقت حسین بن علی رضی اللہ عنہما ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ، عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وغیرھم موجود تھے مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سب سے احتراز کرتے ہوئے اپنے بعد اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ بنانے کا پروگرام بنایا … اور اس طرح اسلامی نظام حکومت میں ایک حقیقی تبدیلی کی بنیاد رکھ دی، یہ تبدیلی ولایت عہد کے نظام کے ایجاد کرنے میں نہیں تھی بلکہ اصل تبدیلی یہ تھی کہ ولی عہد خلیفہ کا بیٹا یا اس کا کوئی قرابت دار ہو، یہاں تک کہ حکومت خلافت راشدہ کی بجائے ملوکیت میں تبدیل ہو گئی۔[4] اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت کی اتباع کے لیے مامور ہیں تو پھر نظام وراثت
Flag Counter