Maktaba Wahhabi

509 - 503
تطبیق کی جاتی رہی۔[1] ۱۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی یزید کو وصیت: ۶۰ ہجری میں جب معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس وقت یزید ان کے پاس موجود نہیں تھا۔ انہوں نے پولیس کے سربراہ ضحاک بن قیس فہری اور مسلم بن عقبہ مری کو بلایا اور انہیں وصیت کرتے ہوئے فرمایا: میری یہ وصیت یزید کو پہنچا دینا کہ اہل حجاز کا خیال رکھنا، اس لیے کہ وہ تیری قوم کے لوگ ہیں، ان میں سے جو کوئی تیرے پاس آئے اس کا اکرام کرنا اور جو تیرے پاس حاضر نہ ہو سکیں ان کا خیال رکھنا، اہل عراق پر نظر رکھنا، اگر وہ تجھ سے ہر روز اپنے عامل کی تبدیلی کا مطالبہ کریں تو ایسا ضرور کرنا، اس لیے کہ ایک عامل کو معزول کر دینا مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ ایک لاکھ تلواریں تیرے خلاف سونت لی جائیں اور اہل شام کے حال پر نظر رکھنا اور انہیں اپنا ہم راز اور دم ساز بنائے رکھنا، اگر دشمن کی طرف سے تجھے کوئی مہم درپیش ہو تو ان کی مدد حاصل کرنا، پھر جب تو فتح مند ہو جائے تو انہیں ان کے وطن واپس بھجوا دینا۔ اس لیے کہ اگر وہ دوسرے شہروں میں آباد ہوں گے تو انہی کا کردار و اخلاق اپنا لیں گے۔ قریش میں سے تین لوگوں کے علاوہ مجھے کسی کا خوف نہیں ہے: حسین بن علی رضی اللہ عنہما ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو تو دین داری نے مار ڈالا ہے وہ تجھ سے کسی بات کے طلب گار نہیں ہوں گے، رہے حسین بن علی رضی اللہ عنہما تو وہ ہلکے پھلکے آدمی ہیں اور مجھے امید ہے جن لوگوں نے ان کے والد محترم کو قتل کیا اور ان کے بھائی کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا اللہ ان لوگوں کے ذریعے سے تجھے حسین کی فکر سے نجات دلائے گا۔ مگر یہ بات یاد رہے کہ انہیں قریب کی قرابت داری حاصل ہے اور ان کا بہت بڑا حق ہے اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اہل عراق انہیں خروج پر آمادہ کیے بغیر نہیں چھوڑیں گے، اگر تو ان پر قابو پا لے تو درگزر سے کام لینا، اگر وہ تیرے پاس اس طرح آتے تو میں انہیں ضرور معاف کر دیتا، ہاں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما چال چلنے والے (معاملا ت کو اُلٹ پلٹ دینے والے) اور ہوشیار ہیں، اگر وہ تیرے مقابلے میں آئیں تو ان کا مقابلہ کرنا ہاں اگر وہ صلح کے طالب ہوں تو اسے قبول کر لینا اور جہاں تک ممکن ہو اپنی قوم کو خون ریزی سے بچانا۔[2] معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی وصیت میں اپنی مملکت کے صرف تین صوبوں حجاز، عراق اور شام کا ذکر کیا ہے اور یہ اس لیے کہ دیگر صوبوں کے سیاسی حالات ان کے نزدیک کسی قابل ذکر پریشانی کا سبب نہیں بن سکتے تھے۔[3] ا: حجاز:… معاویہ رضی اللہ عنہ اس صوبہ کی نسبت سے اپنے بیٹے یزید کو فرماتے ہیں: اہل حجاز کا خیال رکھنا اس لیے کہ وہ تیری قوم کے لوگ ہیں ان میں سے جو تیرے پاس آئے اس کا اکرام کرنا اور جو تیرے پاس حاضر نہ ہو اس کا خیال کرنا۔[4] ان کے نزدیک حجاز کی یہ اہمیت ان کے خاندان اور قوم کا مسکن ہونے کے علاوہ
Flag Counter